کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 192
﴿وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴾ [1] (اور تین شخصوں کے حال پر بھی(اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا) جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اس کے کہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی تاکہ وہ آئندہ بھی توبہ کرسکیں بیشک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم والا ہے۔) "یہ تین صحابہ کرام تھے، کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ (رضی اللہ عنھم)۔ یہ تینوں نہایت مخلص مسلمان تھے، اس سے قبل تقریباً ہر غزوے میں یہ شریک ہوتے رہے۔ غزوۂ تبوک میں صرف تساہلاً شریک نہیں ہو سکے۔ بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو سوچا کہ ایک غلطی ( پیچھے رہنے کی) تو ہو ہی گئی ہے، لیکن اب منافقین کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جھوٹا عذر پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گے۔ چنانچہ حاضر خدمت ہو کر اپنی غلطی کا صاف اعتراف کرلیا اور اس کی سزا کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے معاملے کو اللہ کے سپرد کردیا کہ وہ ان کے بارے میں کوئی حکم نازل فرمائے گا۔ تاہم اس دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ان تینوں افراد سے تعلق قائم رکھنے حتیٰ کہ بات چیت تک کرنے سے روک دیا اور چالیس راتوں کے بعد انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں سے بھی دور رہیں ۔ چنانچہ بیویوں سے بھی جدائی عمل میں آ گئی۔ مزید دس دن گزرے تو توبہ قبول کرلی گئی اور مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
[1] محمد بن عبد اللّٰه الخطيب العمری، أبو عبد اللّٰه ، ولی الدين، التبريزی (المتوفى: 741هـ): مشكاة المصابيح،جلد3،صفحہ 1361۔