کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 191
((وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ [ص:1358] وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا)) (جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور برائیاں آگ کی طرف لے جاتی ہیں اور جب انسان جھوٹ بولنے کا عادی ہو جاتا ہے اور اسی کی تلاش میں رہتا ہے حتیٰ کہ عنداللہ کذاب لکھا دیا جاتا ہے۔) عنداللہ صدیق لکھا جانا قرب الہی اور رضائے خدا وندی کی علامت (Symbol )ہے۔ جبکہ عنداللہ کذاب لکھا جانارحمت الٰہی سے دوری اور غضب خداوندی کی علامت ہے۔ دروغ گوپر لاشعوری اثرات کاذب شخص پر کچھ لا شعوری اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں جنہیں ہم محسوس (Feel)نہیں کرسکتے۔حدیث شریف میں ہے (( وَاِذَا کَذَبَ الْعَبْدُ تُبَاعَدَ عَنْہُ الْمَلَکُ مِیْلاً مِنْ نَتْنِ مَا جَائَ بِہٖ )) [1] (یعنی جب کوئی جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ ایک میل اس سے بعید ہوجاتاہے اس بوئے ناگوار کی بدولت جو کذب بیانی کے باعث اس سے آتی ہے۔) سچ بولنے کا عظیم ثمرہ غزوہ تبوک میں تساہل پسندی کی بدولت بغیر شرعی عذر کے شریک نہ ہوسکنے والے تین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ایک سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ تھے۔ ان تینوں نے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ بولا، جس کی وجہ سے انہیں آزمائش سے گزرنا پڑا لیکن ان خوش بختوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی نامہ مل گیا۔اللہ تعالیٰ نے ان تین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا ذکر درج ذیل آیت مبارکہ میں کیا ہے:
[1] محمد بن عبد اللّٰه الخطيب العمری، أبو عبد اللّٰه ، ولی الدين، التبريزی (المتوفى: 741هـ): مشكاة المصابيح،جلد3،صفحہ 1357۔