کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 190
دروغ گوئی سےعوام الناس میں اعتبار و یقین ختم ہو جاتا ہے اگر اس کے برعکس کوئی کپوت آدم ارتکاب دروغ گوئی کرتا ہے لامحالہ اس پر دروغ گوئی کے اثرات قبیحہ و سیّہ مرتب ہونگے ۔ عوام الناس میں اس کا اعتبار و یقین جاتا رہے گا حتی کہ دروغ گو آدمی کسی معاملہ میں صدق بیانی سے کام لے تب بھی کوئی اس پر یقین نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی اس کی بات پر کان دھرتا ہے کیونکہ وہ عادتاً صادق القول نہیں ہوتا۔ اس بات کی تصدیق عہدِ حاضر میں اس طرح ہوتی ہے کہ ہم لوگوں کو اپنے ملک کی مصنوعات پر اس قدر یقین نہیں جس قدر غیر ملکی مصنوعات پر ہے وجہ صاف ظاہر ہے۔ آپ اپنی اداؤں پے غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی دروغ گوپر اللہ کی لعنت و پھٹکار ہوتی ہے کذب بیانی کا دوسرا پرخطر اثر یہ ہوتا ہے کہ کاذب القول انسان رحمت ایزدی سے بعید ہونے کے ساتھ ساتھ ملعون بن جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی الْکَاذِبِیْنَ﴾[1] جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ دروغ گوئی گناہوں کی طرف لے جاتی ہے دروغ گوئی کا تیسرا بھیانک ، ہولناک اور مہلک اثر یہ ہوتاہے کہ کاذب اللسان آدمی پر آثام،'ذنوب ، معاصی، منکرات ،سیاٰت اور جرائم کا باب کھل جاتا ہے جس سے گزرتاہوا وہ سیدھا دوزخ کے گڑھے میں جا گرتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
[1] محمد بن عبد اللّٰه الخطيب العمری، أبو عبد اللّٰه ، ولی الدين، التبريزی (المتوفى: 741هـ): مشكاة المصابيح،جلد3،صفحہ 1357۔