کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 189
صدق بیانی کا دوسرا مثبت اور خوشگوار پہلو یہ ہوتاہے کہ اس کی بدولت صادق القول آدمی کو نیکی کی خاص توفیق منجانب الہی عنایت ہوتی ہے اور نیکی کا ثمرہ (Haruest) اسے جنت کی صورت میں ملتاہے جیساکہ فرمان نبوی ہے :
((عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا)) [1]
(ہمیشہ سچ کادامن تھامے رہو کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتاہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتاہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے حتی کہ وہ عنداللہ صدیق لکھ دیاجاتاہے۔)
سچ کی تلاش میں رہنے کا یہ مطلب ہے کہ سچا آدمی ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ وہ سچ ہی بولے اور حتی الوسع اس کی کوشش ہو تی ہے کہ جھوٹ سے بچے اور اپنے دامن صدق کو غلاظت کذب سے داغدار نہ ہونے دے۔
صاف گوئی سے اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے
صدق بیانی کا تیسرا بڑا اثر یہ ہوتا ہے کہ صادق البیان آدمی کا ضمیر ،نفس ، روح اور دل اطمینان کی دولت سے مالا مال اور نعمت تسکین قلب سے بہرہ ور ہوتا ہے ۔
صاف گوئی امامت کی اہلیت کے لیے شرط ہے
علامہ اقبال مرحوم فرماتے ہیں کہ انسان عہدہ امامت اور منصب حکمرانی کا صحیح مستحق اور اہل اس وقت ہوتا ہے جب اس میں تین اوصاف حمیدہ اور صفات عالیہ جاگزین ہوں یعنی وہ انسان صداقت و شجاعت اور عدالت کاپیکر ہو جیسا کہ وہ فرماتے ہیں ۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا