کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 178
﴿وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴾ [1]
(اور وہ( مسلمان )غصہ پی جاتے اور لوگوں پر مہربان ہیں اور اللہ تعالیٰ محسنین سے محبت کرتے ہیں ۔)
اس طرح کا ایک نصیحت آموز اور ایمان افروز واقعہ تفسیر قرطبی میں بھی بیان کیا گیاہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف کا کردار بے عیب کس قدر قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ اقبال بارگاہ ایزدی میں دعاگو ہے کہ:
عطا اسلاف کا جذب دروں کر شریکِ زمرہ لَا یَحزَنُوں کر
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں میرے مولامجھے صاحب جنوں کر
"ایک دفعہ حضرت میمون بن مہران رحمہ اللہ اپنے مہمانوں میں تشریف فرما تھے کہ ان کی ایک لونڈی پیالے میں یخنی یا شوربا لے کر آئی جب وہ حضرت میمون کے پاس پہنچی تو اس کا پاؤں پھسل گیا اور گرم یخنی یا شوربا حضرت میمون پر گر گیا جس کی وجہ سے حضرت میمون غصے میں آ گئے اور اس لونڈی کو مارنے کا ارادہ کیا کہ وہ لونڈی بول پڑی اے میرے آقا اللہ کی اس بات(حکم) پر عمل کرو'' وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ ''میمون نے جواباً کہا میں نے اس پر عمل کیا (لہذا وہ اپنا غصہ پی گئے) لونڈی نے کہا اس پر عمل کرو وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ میمون نے کہا (کہ جا) میں نے تجھ سے در گزر کیا وہ لونڈی بولی "وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ "میمون نے کہا میں تجھ سے نیکی کرتاہوں پس تو رضائے الہی کے لئے آزاد ہے۔" [2]
تم ہو آپس میں غضبناک وہ آپس میں رحیم تم خطا کار و خطا بین وہ خطا پوش و کریم
یہ لوگ تھے قرآن جن کا اوڑھنا بچھونا تھا جن کی زندگی کا ہر پہلو قرآن کے مطابق تھا پھر یہ پوری دنیا ان کے پاؤں تلے کیوں نہ ہوتی ۔
[1] البخاری ،محمد بن إسماعيل ، أبو عبد اللّٰه (المتوفى: 256هـ):صحیح البخاری،باب قولہ : (خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ)۔