کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 138
اور بیچ میں پہنچ کر جب سمندر میں پھینکنا چاہا تو اس نے پھر وہی دعا کی کہ بار الہی جس طرح چاہ مجھے ان سے بچا، موج اٹھی اور وہ سپاہی سارے کے سارے سمندر میں ڈوب گئے صرف وہ بچہ ہی باقی رہ گیا یہ پھر بادشاہ کے پاس آیا، اور کہا میرے رب نے مجھے ان سے بھی بچا لیا اے بادشاہ تو چاہے تمام تدبیریں کر ڈال لیکن مجھے ہلاک نہیں کرسکتا ہاں جس طرح میں کہوں اس طرح اگر کرے تو البتہ میری جان نکل جائے گی۔ اس نے کہا کیا کروں فرمایا تو لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر پھر کھجور کے تنے پر سولی چڑھا اور میرے ترکش میں سے ایک تنکا نکال میری کمان پر چڑھا اور" بسم اللہ رب ھٰذا الغلام "یعنی اسی اللہ کے نام سے جو اس بچے کا رب ہے کہہ کر وہ تیر میری طرف پھینک وہ مجھے لگے اور اس سے میں مروں گا چنانچہ بادشاہ نے یہی کیا تیر بچے کی کنپٹی میں لگا اس نے اپنا ہاتھ اس جگہ رکھ لیا اور شہید ہوگیا۔ اس کے اس طرح شہید ہوتے ہی لوگوں کو اس کے دین کی سچائی کا یقین آ گیا چاروں طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ ہم سب اس بچے کے رب پر ایمان لا چکے یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے مصاحب گھبرائے اور بادشاہ سے کہنے لگے اس لڑکے کی ترکیب ہم سمجھے ہی نہیں دیکھئے اس کا یہ اثر پڑا کہ یہ تمام لوگ اس کے مذہب پر ہوگئے ہم نے تو اسی لیے قتل کیا تھا کہ کہیں یہ مذہب پھیل نہ جائے لیکن وہ ڈر تو سامنے ہی آ گیا اور سب مسلمان ہوگئے بادشاہ نے کہا اچھا یہ کرو کہ تمام محلوں اور راستوں میں خندقیں کھدواؤ ان میں لکڑیاں بھرو اور اس میں آگ لگا دو جو اس دین سے پھر جائے اسے چھوڑ دو اور جو نہ مانے اسے اس آگ میں ڈال دو ان مسلمانوں نے صبر و ضبط کے ساتھ آگ میں جلنا منظور کرلیا اور اس میں کود کود گرنے لگے، البتہ ایک عورت جس کی گود میں دودھ پیتا چھوٹا بچہ تھا وہ ذرا ہچکچائی تو اس بچہ کو اللہ نے بولنے کی طاقت دی اس نے کہا اماں کیا کر رہی ہو تم تو حق پر ہو صبر کرو اور اس میں کود پڑو۔ یہ حدیث مسند احمد میں بھی ہے اور صحیح مسلم کے آخر میں بھی ہے اور نسائی میں بھی قدرت اختصار کے ساتھ ہے،"
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق اداناہوا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صرف اور صرف اپنی ہی کامل اطاعت وبندگی کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
وآخر دعوانا أن الحمد اللّٰہ رب العالمین