کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 127
کبھی اپنے اہل و عیال کو بے آب و گیاہ اور غیر آباد سر زمین مکہ میں تن تنہا چھوڑنا پڑا ، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (37) ﴾ [1] (اے میرے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں ۔ کبھی ترک وطن کے صدمہ عظیم سے دو چار ہونا پڑا اور کبھی اپنے لخت جگر اور نور چشم کے حلقوم نازک پر سکین چلا کر کمال اطاعت کا ثبوت فراہم کرنا پڑا۔پھر ان ابتلا أت امتحانات کے نتیجے میں آپ علیہ السلام کو منصب امامت سے نوازا گیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ﴾ [2] ( جب ابراہیم علیہ السلام کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا (١) اور انہوں نے سب کو پورا کردیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا، عرض کرنے لگے میری اولاد کو (٢) فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں ۔ ) اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ صلہ عظیم دیا کہ قیامت تک آنے والے لوگوں میں آپ علیہ السلام کا ذکر خیر باقی اور زندہ و جاوید رکھنے کا عہد دے دیا۔ ﴿ وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ (84) ﴾ [3]
[1] سورۃ الانبیاء:68تا72۔