کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 125
چارہ نہیں رہتا کہ یہ صداقت کی ایک ایسی دلیل ہے جس سے بڑی کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔" [1] وہ لوگ جو آزنائش کے وقت اپنا قبلہ تبدیل کرلیتے ہیں وہ قابل مذمت ہیں نا انہیں دنیا میں کامیابی ملتی ہے اور نا ہی ان کی آخرت سنورتی ہےچنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِهٖ ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْهِهٖ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ﴾ [2] (بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر (کھڑے) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں انہوں نے دونوں جہان کا نقصان اٹھا لیا واقع یہ کھلا نقصان ہے۔) [3] آزمائشوں سے گناہوں کی معافی "سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ مومن مرد اور مومن عورت پر اس کی جان، اولاد اور مال میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں ، یہاں تک کہ وہ جب اللہ تعالیٰ سے ملتے ہیں (ان کو موت آتی ہے) تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔‘‘ [4] ایمان وایقان کی کمی بیشی کی مناسبت سے آزمائش آتی ہے۔امتحانات و بلیات میں یہ اصول خداوندی ہے کہ کسی شخص پر آزمائش اتنی سخت یا نرم ہوگی جس قدر اس کا ایمان پختہ یا کمزور ہو گا یعنی آزمائش علی حسب الایمان والایقان ہی ہوتی ہے جیسے اللہ کریم فرماتے ہیں : ﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ﴾ [5] ( اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا )
[1] سورۃ یونس: 103۔ [2] سورت الاعمران: 143 [3] سورۃ البقرہ: 249۔