کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 113
پہنچ گیا۔ اس نے آپ کو قتل کرنے کے لیے اس موقعہ کو نہایت غنیمت سمجھا اور بڑھ کر تلوار درخت سے اتارنے لگا۔ وہ تلوار کو اتار ہی رہا تھا کہ آپ کو جاگ آ گئی۔ بدو تلوار ہاتھ میں پکڑ کر کہنے لگا۔ 'اب بتلاؤ! تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے نہایت اطمینان سے جواب دیا 'میرا اللہ ' یہ الفاظ آپ نے اس قدر بے باکی سے کہے کہ بدو سخت مرعوب ہوگیا اور کانپنے لگا۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ آپ نے اپنی تلوار سنبھال لی۔ پھر جب آپ نے اس پر قابو پا لیا تو صحابہ کو بلا کر اس ماجرا سے آگاہ کیا۔ بعد میں آپ نے اس بدو کو معاف کردیا ۔واضح رہے کہ یہ بدوی اسی قبیلہ سے تھا جس کی سرکوبی کے لیے آپ نکلے ہوئے تھے۔ [1] ١٥۔ فضالہ بن عمیر کا ارادہ قتل ٨ ھ : یہ فضالہ اسی عمیر بن وہب کا بیٹا تھا جو صفوان بن امیہ سے مشورہ کے بعد آپ کو قتل کرنے کے لیے مدینہ پہنچا تھا اور نتیجتاً اسلام لا کر واپس مکہ جا کر مقیم ہوگیا تھا۔ اس کا بیٹا فضالہ ابھی تک مشرک ہی تھا۔ فتح مکہ کے بعد آپ کعبہ کا طواف فرما رہے تھے کہ فضالہ کو بھی آپ کے قتل کی سوجھی۔ جب وہ اس ارادہ سے آپ کے قریب آیا تو آپ نے خود اسے اس کے ارادہ سے مطلع کردیا۔ جس پر وہ اپنے باپ کی طرح مسلمان ہوگیا۔ [2] ١٦۔ منافقوں کی آپ کو قتل کرنے کی سازش ٩ ھ : غزوہ تبوک سے واپسی پر تقریباً چودہ یا پندرہ منافقوں نے یہ سازش تیار کی کہ آپ کی کھلے راستہ کے بجائے گھاٹی والے راستہ کی طرف رہنمائی کی جائے اور جب آپ وہاں پہنچ جائیں تو آپ کو سواری سے اٹھا کر نیچے گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے اسی سازش کے تحت آپ کی سواری کو اس راہ پر ڈال دیا گیا۔ حذیفہ بن یمان آپ کے ہمراہ تھے۔ جب گھاٹی
[1] (سیرۃ النبی۔ شبلی نعمانی ج ١ ص ٤٨٢) [2] (تفصیل کے لیے دیکھئے بخاری۔ کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس و جنودہ۔ نیز کتاب الادب۔ باب ( اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ 90؀) 16- النحل :90) اور سورۃ فلق کا حاشیہ نمبر ٥