کتاب: ریاض الخطبات (جلد اول) - صفحہ 101
مختلف مواقع پر اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی کی حفاظت فرمانا
آپ کی جان بچانے والے کی شہادت :
کوہ صفا پر اپنے اقربین کو دعوت دینے کے بعد جب آیت (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ 94 15-(الحجر :94) نازل ہوئی تو آپ نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان فرمایا۔ آپ کا یہ اعلان مشرکین مکہ کی سب سے بڑی توہین کے مترادف تھا۔ چنانچہ دفعتاً ایک ہنگامہ بپا ہوگیا اور ہر طرف سے لوگ آپ پر پل پڑے۔ آپ کے ربیب (سیدہ خدیجہ کے پہلے خاوند سے بیٹے) حارث بن ابی ہالہ گھر میں موجود تھے انہیں خبر ہوئی تو دوڑتے ہوئے آئے اور آپ کو بچانا چاہا۔ اب ہر طرف سے ان پر تلواریں پڑنے لگیں اور وہ شہید ہوگئے۔ اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون تھا جو بہایا گیا۔ [1]
٢۔ ابو جہل کا ارادہ قتل
ایک دن ابو جہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا 'میں نے اللہ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ کسی وقت جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں تو بھاری پتھر سے ان کا سر کچل دوں تاکہ یہ روز روز کا جھگڑا ختم ہو۔ اس کے بعد چاہے تو تم لوگ مجھے بالکل بےیار و مددگار چھوڑ دو کہ بنو عبد مناف مجھ سے جیسا چاہے سلوک کریں اور چاہے تو میری حفاظت کرو۔ ' اس کے ساتھیوں نے کہا 'واللہ ! تمہیں بےیارومددگار نہ چھوڑیں گے۔ لہذا تمہارا جو جی چاہے کر گزرو۔ '
اس تجویز کے مطابق ابو جہل ایک بھاری پتھر لے کر کعبہ میں پہنچا اور مناسب موقع کا انتظار کرنے لگا۔ چنانچہ جب آپ سجدہ میں گئے تو ابو جہل پتھر لے کر آپ کے قریب پہنچا مگر یکدم خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور پتھر کو بھی مشکل سے نیچے رکھ سکا۔ اس کے ساتھی بڑے متعجب تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا 'ابو الحکم! یہ کیا ماجرا
[1] شبیر احمد عثمانی :تفسیر عثمانی ۔
[2] القرطبی،أبو عبد اللّٰه محمد بن أحمد بن أبی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ):تفسیر القرطبی اس آیت کے تحت: رب اغفرلی و ھب ملکا لا ینبغی لا حد من بعدی۔
[3] حافظ ابن کثیر: تفسیر القرآن العظیم ، اس آیت کے تحت: رب اغفرلی و ھب ملکا لا ینبغی لا حد من بعدی۔