کتاب: رسول اللہ ص کی سنہری وصیتیں - صفحہ 44
کیا ہے: ((اُرْقُبُوْا مُحَمَّدًا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِي أَھْلِ بَیْتِہِ۔))[1] ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے بارے میں آپ کا لحاظ رکھو۔‘‘ دونوں احادیث بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں نقل کی ہیں : آپ فرمایا کرتے کہ:’’ اے ابو الحسن ہمیں فتویٰ دیجیے۔‘‘ صحیح بخاری میں سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ((صَلَّی أَبُو بَکْرٍ رضی اللّٰہ عنہ الْعَصْرَ، ثُمَّ خَرَجَ یَمْشِی، فَرَأَی الْحَسَنَ یَلْعَبُ مَعَ الصِّبْیَانِ فَحَمَلَہُ عَلَی عَاتِقِہِ، وَقَالَ: بِاَبِیْ شَبِیْہٌ بِالنَّبِیِّ لَا شَبِیْہٌ بِعَلِیٍ وَعَلِیٌّ یَضْحَکُ۔)) [2] ’’ایک دن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عصر کی نماز پڑھی، پھر پیدل چل پڑے۔ راستے میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو ان کو اپنے کندھوں پر بٹھالیا اور فرمانے لگے: ’’میرا باپ قربان! یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے ہیں ، علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ، سیدنا علی یہ سنتے ہوئے ہنس رہے تھے۔‘‘ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دفتر قائم کیا تاکہ بیت المال کے مال کو تقسیم کریں تو اہل بیت سے ابتدا فرمائی حالانکہ لوگوں کا خیال تھا کہ آپ اپنی ذات سے شروع فرمائیں گے لیکن
[1] صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ، باب مناقب قرابۃ رسول اللہ صلی اللّٰه علیہ وسلم …، ح : ۳۷۱۳۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’آپ لوگوں سے خطاب کرکے انہیں نصیحت فرما رہے ہیں ۔ مراقبہ کا معنی ہے کہ کسی چیز کا خیال رکھنا، پابندی کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لحاظ رکھتے ہوئے آپ کے اہل بیت کا احترام کرو،انہیں تکلیف نہ دو اور ان سے بدسلوکی نہ کرو۔‘‘ [2] صحیح البخاري، المناقب باب صفۃ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم …، ح: ۳۵۴۲۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں ’’بِاَبی‘‘ سے مراد یہ ہے کہ میرا باپ اس پر فدا ہو جائے۔ اس حدیث سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور اہل بیت سے آپ کی گہری محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔