کتاب: رسول اللہ ص کی سنہری وصیتیں - صفحہ 38
آل پر بے شک آپ بے حد تعریف والے خوب بزرگی والے ہیں ۔‘‘[1] اور یہ حدیث اس آنے والی حدیث کے آخری لفظ کی تشریح کرتی ہے: (( اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ۔)) ’’اے اللہ رحمت نازل فرما محمد( علیہ السلام ) پر اور ان کی آل پر اوربرکت نازل فرما محمد( علیہ السلام ) اور ان کی آل پر۔‘‘ تو یہاں پر آل سے مراد آپ علیہ السلام کی ازواج اور باقی اولاد ہے جیسا کہ پہلی حدیث میں مذکور ہے اور نص آل محمد میں لفظ (الآل) کی تشریح کو آل ابراہیم میں لفظ الآل کے معنی میں مراد لیے جانے کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قَالَتْ یٰوَیْلَتٰٓی ئَ اَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ ہٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عَجِیْبٌo قَالُوْٓا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَہْلَ الْبَیْتِ اِنَّہٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌo﴾ (ہود: ۷۳) ’’کا اس (ابراہیم علیہ السلام کی بیوی) نے، ہائے! کیا میں بچہ جنوں گی جبکہ میں تو بوڑھی ہوں اور میرا یہ شوہر بھی بوڑھا ہے، یہ تو عجیب چیز ہے، انہوں نے کہا: کیا
[1] درود میں ازواج مطہرات اور کا ذکر صحیحین میں بھی سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اہل بیت مطہرات اور اولاد میں محدود ہیں ۔ بلکہ اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ قطعاً اہل بیت ہیں ۔ باقی رہا اس حدیث میں ازواج کا اہل بیت پر عطف تو یہ عام پر خاص کا عطف ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اہل بیت، ازواج اور ذریت والی حدیث جس کی سند میں مقال ہے۔ ذکر کرنے کے بعد فرمایا:’’آپ نے اس حدیث میں ازواج، ذریت اور اہل بیت کو اکٹھا ذکر کرکے یہ صراحت فرما دی کہ ان کا اہل بیت سے ہونا قطعی ہے اور وہ اہل بیت سے خارج نہیں ، بلکہ وہ اس فضیلت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔ باقی رہا ان کا اہل بیت پر عطف تو یہ ان کی فضیلت و شرف کا خصوصی اظہار ہے، کیونکہ یہ کلام کا بلیغ انداز ہے کہ ایک نوع کے چند افراد کا خصوصی ذکر بھی کردیا ہے تاکہ پتہ چل جائے کہ یہ افراد اس نوع میں بدرجہ اتم داخل ہیں ۔ خاص کا عام پر عطف یا عام کا خاص پر عطف مشہور طریقہ ہے۔‘‘