کتاب: رسول اللہ ص کی سنہری وصیتیں - صفحہ 18
ہے اسی طرح بعض کے لیے نواں حصہ، بعض کے لیے آٹھواں ، ساتواں ، چھٹا، پانچواں ، چوتھا، تہائی اور بعض کے لیے آدھا حصہ رکھا جاتا ہے۔‘‘[أبو داؤد ؛ طبرانی ] اور ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ: ’’ سب سے پہلے دین میں سے خشوع اٹھایا جائے گا۔‘‘ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس امت میں سب سے پہلی چیز جو اٹھائی جائے گی وہ خشوع ہو گا حتیٰ کہ تم مسجد کی نماز میں کسی کو خشوع سے نماز پڑھتا نہیں دیکھ سکو گے۔‘‘ (قال الہیثمی فی مجمع الزوائد: اسنادہ حسن) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’وہ زمانہ قریب ہے کہ تم مسجد میں داخل ہو گے اور اس میں کسی ایک کو بھی خشوع والا نہ دیکھو گے۔‘‘[أخرجہ الامام أحمد ] درحقیقت حقیقی خشوع دو چیزوں سے مل کربنتا ہے: ۱۔ پہلا جزء ظاہر ی عمل: یعنی نماز میں اعضاء سے سکون اور اطمینان کا ظاہر ہونا اور نظر کا ادھر ادھر نہ پھرنا ہے۔ ۲۔ دوسرا جزء باطنی عمل :یعنی نماز میں دل کا حاضر ہونا ہے تاکہ نمازی نماز میں ہر قول و فعل کو یاد رکھ [سمجھ ]سکے تو نتیجتاً اس سے وہ اپنی دنیا و آخرت میں مستفید ہو گا۔ اور یہاں کچھ ایسے عوامل اور اسباب ہیں جو خشوع لانے کے لیے معاون اور مددگار ہوں گے۔ اس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَo﴾ (العنکبوت: ۶۹) ’’اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ہم ضرور بالضرور ان کو اپنے راستے دکھا دیتے ہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہیں ۔‘‘