کتاب: رسول اللہ ص کی سنہری وصیتیں - صفحہ 17
گے اور یہ سمجھ لو کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ اور جو شخص اچھی طرح سے وضو کرے اور پھر مسجد کی طرف جائے تو اس کے نامہ اعمال میں ہر ہر قدم پر ایک ایک نیکی لکھی جائے گی۔ اور ایک ایک خطا معاف ہو گی۔ اور ہم تو اپنا حال ایسا دیکھتے تھے کہ جو شخص کھلم کھلا منافق ہوتا صرف وہی با جماعت نماز سے پیچھے رہ جاتا تھا۔ ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عام منافقوں کی بھی جماعت کی نماز چھوڑنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، یاپھر کوئی سخت بیمارہو، ورنہ جو شخص دو آدمیوں کے سہارے گھسٹتا ہوا جا سکتا تھا وہ بھی لاکر صف میں کھڑا کر دیا جاتا تھا۔‘‘
۵۔ نماز کے اقوال اور افعال میں سنت کو اختیار کرنا حتیٰ کہ ایک مسلمان کے لیے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی بجا آوری ہو سکے جس میں آپ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتا ہوا دیکھتے ہو۔‘‘[بخاری ]
۶۔ نماز میں خشوع اور دلی توجہ رکھنا نماز کے عظیم ترین آداب میں سے ہے۔ بلکہ نماز کا مغز و جوہر اور اس کا افضل ترین ادب اور روح خشوع اور دلی توجہ ہے؛ جس کی وجہ سے نماز کے ثمرات مثلاً : تقوی اور جملہ اچھے اخلاق اورعالیشان عادات حاصل ہوتے ہیں ؛ اور ہر برائی اور بے حیائی اور ناشائستہ بات سے دوری پیدا ہوتی ہے۔خشوع و خضوع اور دلی توجہ کے ساتھ ادا کی گئی نماز پرہی ثواب کی امید کی جاتی ہے؛ اوریہ ثواب بندے کو اس کے خشوع اور حضور قلب کے بقدر حاصل ہوتا ہے، اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَo﴾ (المومنون: ۱-۲)
’’بالتحقیق وہ مومنین کامیاب ہو گئے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں ۔‘‘
حضرت عمار بن یار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
’’ جب آدمی نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے لیے ثواب کا دسواں حصہ رکھا جاتا