کتاب: رسول اللہ ص کی سنہری وصیتیں - صفحہ 16
اَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَّیْلَۃً وَّاحِدَۃً وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ کَانَ بِکُمْ اَذًی مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَنْ تَضَعُوْٓا اَسْلِحَتَکُمْ وَ خُذُوْاحِذْرَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّہِیْنًاo﴾ (النساء: ۱۰۲) ’’اور جب آپ ان لوگوں میں ہوں اور ان کے ساتھ جماعت کروائیں تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہو اور وہ لوگ اپنا اسلحہ لے لیں ، پس جب وہ لوگ سجدے میں جائیں تو (اسلحہ والے) تمہارے پیچھے ہوں اور دوسرا گروہ جس نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی آ جائے اور دوسرا گروہ اپنے بچاؤ کا سامان اور اسلحہ لے لیں ، کافر لوگ چاہتے ہیں کہ جیسے ہی تم اپنے اسلحہ اور جنگی ساز و سامان سے غافل ہو تو تم پر یکبارگی سے حملہ کر دیں اور تم پر اس بات کا کچھ گناہ نہیں کہ تمہیں کوئی تکلیف ہو بارش کی وجہ سے یا تم بیمار ہو تو تم اپنا اسلحہ اتار دو اور اپنے بچاؤ کا سامان لے لو، بے شک اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے ذہنوں میں بالکل راسخ ہو چکی تھی حتیٰ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نماز کی جماعت چھوڑنے والے کو منافق شمار کرتے تھے اور ان میں سے کوئی تو اپنے آپ کو مشقت میں ڈال کر بھی جماعت میں حاضر ہوتا تھا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول غور سے سنیے: ’’جو شخص یہ چاہتا ہو کہ کل قیامت کے دن اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں مسلمان بن کر حاضر ہو وہ ان نمازوں کوان مقامات پر ادا کرنے کا اہتمام کرے جہاں سے اذان ہوتی ہو (یعنی مساجد میں )۔ اس لیے کہ حق تعالیٰ شانہ نے تمہارے نبی کے لیے ایسی سنتیں جاری فرمائی ہیں جو سراسر ہدایت ہیں ، انہی میں سے ایک با جماعت نمازیں بھی ہیں ۔ اگر تم لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے جیسا کہ فلاں شخص پڑھتا ہے تو تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑنے والے بن جاؤ