کتاب: رسول اللہ ص کی سنہری وصیتیں - صفحہ 154
قسطیں ادا کرنے پر قدرت نہیں رکھتے اس وجہ سے جیل کاٹتے ہیں ۔
چوتھانقصان:… سود کا معاملہ کرنے والوں میں برے اخلاق کا پیدا ہونا، مثلاً لالچ، انا پرستی ، سختی، لوگوں کے مال کو ناجائز کھانا اور حرص جیسے اخلاق رذیلہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ﴾ (البقرۃ: ۲۷۵)
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قبروں سے اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنایا ہو۔‘‘
پانچواں نقصان:… کچھ لوگوں کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہو جانا اور فقراء کے پاس اور قلت ہو جانا ہے۔
اس زمانے میں اقتصادیت کے وجود کے بعد سے اس مہلک گناہ یعنی سود کے اقتصادی اور اجتماعی نقصانات کھل کر سامنے آئے ہیں ۔
سود کو حلال سمجھنا اور اس کے معاملات طے کرنا:
اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ آج کل مسلمان بعض سود معاملات کو حلال سمجھتے ہیں ۔ اس کا سبب بعض علماء کا معاملات کی حقیقت سے واقف نہ ہونا ہے اور سود کے حرام ہونے کے مقاصد کا خیال نہ رکھنا اسی وجہ سے بعض علماء نے ’’منافع بخش قرض‘‘ کو جائز قرار دے دیا ہے اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ’’نفع بخش قرض‘‘ مختلف فیہ ہے (اس میں اختلاف ہے) وہ اس بات سے غافل ہیں کہ جس چیز کو بینک والے قرض کہتے ہیں وہ فقہاء کے نزدیک قرض نہیں کیونکہ قرض تو اس فائدہ والے عقد کو کہا جاتا ہے کہ جس میں مدت کو دخل نہیں ہوتا۔ جبکہ بینک والے جس کو قرض کہتے ہیں وہ تو عقد معاوضہ ہے اور مدت کو اس میں بڑا دخل ہے تو فقہی اصطلاح میں یہ تو سودی بیع ہو گئی۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ عربی بینکوں والے جب کسی کارروائی کی تعبیر کسی دوسری زبان میں کرتے ہیں تو اس کو ’’ربا‘‘ (یعنی سود) کے ساتھ موسوم