کتاب: رسول اللہ ص کی سنہری وصیتیں - صفحہ 15
(۲) فرض نماز سے پہلے مسنون نوافل پڑھنا۔
(۳) دماغ کو انتشار اور تشویش میں ڈالنے والے اسباب سے دور رکھنا، جیسا کہ کھانے کی موجودگی میں یا خوب گرمی یا خوب سردی میں نماز پڑھنا۔
(۴) مردوں کا باجماعت نماز پڑھنا۔
صحیح صحت مند اور پرامن انسان (جسے کسی درندے، دشمن وغیرہ کا خوف؛ یا با جماعت نماز سے کوئی چیز مانع نہ ہو)تو اس شخص پربا جماعت نماز ادا کرنا واجب ہے۔ با جماعت نماز کے واجب ہونے کی ایک دلیل اس نابینا صحابی رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے گھر کے دور ہونے اور کوئی ایسا شخص موجود نہ ہونے کی شکایت کی جو ان کو اپنی راہنمائی میں مسجد لے جا سکے؛تاکہ وہ باجماعت نماز ادا کرسکے؛اور اس نیبا جماعت نمازسے رخصت چاہی؛ تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟
تو انہوں نے عرض کیا: جی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ تو جماعت کی نماز میں حاضر ہوا کر۔‘‘[متفق علیہ ]
اوروہ حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاعذر جماعت چھوڑنے والوں کے گھر جلانے کے بارے میں شدید غم و غصہ کیا بیان ہے۔یہ حدیث بھی صحیح بخاری میں روایت کی گئی ہے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا نہ کرنا صرف عورتوں اور بچوں کی حفاظت کی وجہ سے تھا۔
جو امور جماعت کی رفعت شان اور اس کی اہمیت پرواضح دلالت کرتے ہیں ان میں سے حالت خوف میں بھی جماعت کا ساقط نہ ہونا ہے اور جماعت حالت جنگ اور حالت خوف میں بھی مشروع ہے۔اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ اِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِکُمْ وَلْتَاْتِ طَآئِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ وَلْیَاْخُذُوْا حِذْرَہُمْ وَ اَسْلِحَتَہُمْ وَدَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَ