کتاب: رسول اللہ ص کی سنہری وصیتیں - صفحہ 11
کہ ہر زندہ دل رکھنے والے کے سامنے ظاہر ہے۔ مسلمانوں کے حالات میں غور و فکر کرنے والے کا دل اس عظیم عبادت کے حوالے سے ان کے سلوک پر پھٹا جا رہا ہے۔ لوگ اکثر و بیشتر اوقات مکمل طور پرنماز چھوڑدیتے ہیں اور اس کی بعض شرائط و اوقات میں کوتاہی کرتے ہیں ۔جبکہ نماز کے خشوع میں کوتاہی تو ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ اگر اہل اسلام نماز کی صحیح معنوں میں قدر کرنے والے ہوتے اور اس کی بہترین طریقے سے ادائیگی کرتے تو یہ ان کے احوال کی درستگی کا سبب بنتی اور ان کے راستے کے سدھار کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین فرماتے ہیں : ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ﴾ (العنکبوت: ۴۵) ’’اور نماز قائم کرو، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور یقینا اللہ تعالیٰ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘ مسلمانوں کے حالات وواقعات میں غور کرتے ہوئے ان نمازیوں میں بہت سوں کو آپ دیکھیں گے کہ نماز کا ان کے طرز عمل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔اس کا اصل سبب یہ ہے کہ نمازیوں نے نماز کو خشوع سے بالاتر محض ظاہری ارکان کی ادائیگی سمجھ رکھا ہے، تو ایسی نمازوں سے پاکیزگی اور صلاح کا ثمرہ حاصل نہیں ہوتا۔واللہ المستعان ۔ نماز میں کوتاہی کے بعض واضح مشاہدات کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت سے ظاہر ہوتی ہے جو کہ آپ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں فرمائی تھی۔ پس یہ وصیت ایک بہت ہی بڑا اور اہم واجب ہے۔حتی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں ؛ ان آخری لمحات میں بھی آپ نے اپنی امت کو نماز کے قائم کرنے کی وصیت فرمائی ہے۔ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ؛اور اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔آمین