کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 95
ان سب پر تعزیر و تنبیہ واجب ہے اور انہیں اس ملعون شعار سے روکنا ضروری ہے۔ صرف انہیں نہیں بلکہ ہر اس شخص کو جو بدعت و فجور کا ارتکاب کرے یا لوگوں کی اعانت کرے۔ا س قسم کے تمام نام نہاد ناسک، فقیہ، عابد، فقیر،زاہد متکلم، فلسفی اور ان کے معین و مددگار بادشاہ، امراء، کتاب،محاسب، اطباء، اہلِ دیوان،عوام سب کے سب ہدایتِ الٰہی اور دینِ حق سے خارج ہیں کہ جسے دے کر اللہ نے اپنے رسول کو باطناً و ظاہراً مبعوث کیا۔ یہی حکم ان لوگوں کا ہے جو اعتقاد رکھتے ہیں کہ شیخِ طریقت رزق دیتا ہے، امداد و اعانت کرتا ہے، ہدایت بخشتا، مشکلات میں دستگیری کرتا ہے یا جو شیخ کی عبادت کرتے ہیں ، اس سے دعا مانگتے ہیں ، اسے سجدہ کرتے ہیں یا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر علی الاطلاق یا کسی جہت سے بھی فضیلت دیتے ہیں یا یقین کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے شیخ رسول کے اتباع سے مستغنی ہیں ،سو یہ تمام کے تمام کفار ہیں اگر اپنے مسلک کا اظہار کریں اور اگر چھپائیں تو منافق ہیں ۔
اس زمانہ میں ان لوگوں کی کثرت و شوکت ان کے اہلِ حق ہونے کی دلیل نہیں ۔ کیونکہ ان کا یہ تمام عروج محض اس وجہ سے ہے کہ اکثر ممالک میں دعاۃِ علم وہدایت کی قلت ہے اور آثارِ نبوت و رسالت میں فتور آگیا ہے۔ چنانچہ اکثر لوگ ہیں کہ جن کے دامنِ آثاررسالت اورمیراث نبوت سے خالی ہیں کہ جو ہدایت کی شناخت کا ذریعہ ہے اور بہتیرے ایسے بھی ہیں کہ جن کے کان اب تک حق کی صداؤں سے بالکل نا آشنا ہیں ۔لیکن اہل ایمان کو مایوس نہ ہونا چاہیے فترۃ کے ایسے زمانوں میں انسانوں کو اس کے قلیل ایمان پر ثواب ملتا ہے اور ارحم الراحمین اس شخص کے لیے جس پر حجت قائم نہیں ہوئی وہ باتیں معاف کردیتا ہے جو ان لوگوں کو معاف نہیں ہو سکتیں جن پر حجت قائم ہو چکی ہے جیسا کہ حدیث مشہور میں ہے کہ فرمایا:
((یَأْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَعْرِفُوْنَ فِیْہِ صَلٰوۃً وَلَا صِیَامًا وَلَا حَجًّا وَلَا عُمْرَۃً اِلَّاا لشَّیْخَ الْکَبِیْرَ وَالْعَجُوْزَ الْکَبِیْرَ یَقُوْلُوْنَ اَدْرَکْنَا اٰبَائَنَا وَھُمْ یَقُوْلُوْنَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہَ۔)) (موضوعات کبیر)