کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 93
فصل (۱۲): خاتم الاولیاء
لفظ غوث کا علی الاطلاق بطلان ہم بیان کر چکے ہیں جس میں ’’غوثِ عرب‘‘ ’’غوثِ عجم‘‘، ’’غوثِ مکہ‘‘ اور ’’ساتواں قطب‘‘ سب داخل ہیں ۔ اسی طرح لفظ خاتم الاولیاء بھی ایک بے معنی اور باطل لفظ ہے۔ سب سے پہلے جس شخص نے یہ لفظ استعمال کیا وہ محمد بن علی الحکیم الترمذی ہے۔ ایک خاص گروہ نے یہ لقب اختیار کر لیا ہے اور اس کا ہر فرد خاتم الاولیاء ہونے کا دعویٰ کرتا ہے،مثلاً ابنِ حمویہ اور ابن عربی وغیرہ۔ یہی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے (معاذاللہ) کہ بعض اعتبارات سے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل ہیں ۔ اور یہ تمام کفر یہ دعویٰ محض اس لالچ میں ہے کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی مسندِ ریاست مل جائے۔
حالانکہ یہ لوگ سخت غلطی اور گمراہی پر ہیں ، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے افضل اس لیے کہا گیا کہ نصوص و دلائل ثبوت میں موجود ہیں ،برخلاف اولیاء کے جنہیں یہ بات حاصل نہیں ۔اس امت میں سب سے افضل وہ اولیاء ہیں جو مہاجرین و انصار میں سابقون الاولون ہیں اور اس امت کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ ہیں اور اس کے زمانوں میں سب سے افضل وہ زمانہ ہے جس میں اس کے نبی کی بعثت ہوئی پھر وہ زمانے ہیں جو بعد میں آتے گئے۔ رہا ’’ خاتم الاولیاء‘‘ تو اگر واقعی اس کی کوئی حقیقت ہے تو وہ آخری مومن متقی ہے جو اس دنیا میں باقی رہ جائے لیکن وہ نہ تو خیر الاولیاء ہو گا اور نہ افضل الاولیاء کیونکہ خیر الاولیاء و افضل الاولیاء ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ ہیں کہ (انبیاء کے بعد) جن سے افضل پر کبھی سورج نہ طلوع ہوا، نہ غروب ہوا اور نہ کبھی ہو گا۔