کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 90
جو کوئی یہ کہتا ہے کہ مخلوق کو صرف چالیس ابدال کے ذریعہ روزی اور مدد ملتی ہے، وہ صریح وہموں میں پڑا ہے۔ روزی اور کامیابی کا مدار اسباب پر ہے جن میں سب سے قوی سبب مومن مسلمانوں کی دعا، نماز اور اخلاص ہے اور یہ چالیس یا کم زیادہ میں محدود نہیں جیسا کہ مشہور حدیث میں مروی ہے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ((اَلرَّجُلُ یَکُوْنُ حَامِیَۃَ الْقَوْمِ أَیُسْھَمُ لَہٗ مِثْلَ مَا یُسْھَمُ لِضَعْفَتِھِمْ؟ فَقَالَ یَا سَعْدٌ وَھَلْ تُنْصَرُوْنَ وَتُرْزَقُوْنَ اِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ بِدُعَائِھِمْ وَصَلَاتِھِمْ وَاِخْلَاصِھِمْ۔)) ’’وہ شخص جو جنگ کی صفوں میں ہے، اسے بھی اتنا ہی حصہ ملے گا جتنا کمزوروں اور لاچاروں کو؟ فرمایا اے سعد! تمہیں جو کچھ فتح اور رزق ملتا ہے وہ تمہارے کمزوروں ہی کی وجہ سے ملتا ہے ان کی دعا نماز اور اخلاص کی وجہ سے۔‘‘ اور کبھی روزی و فتح مندی کے دوسرے اسباب ہوتے ہیں ، چنانچہ کفار و فجار کو بھی کبھی دولت ونصرت ملتی ہے اور مسلمانوں پر کبھی قحط و وبا نازل ہوتی ہے۔ اللہ انہیں دشمنوں سے ڈراتا بھی ہے تاکہ اس کی طرف رجوع کریں ، گناہوں سے توبہ کریں اور وہ ذات پاک ایک طرف ان کے گناہ معاف کر دے اور دوسری طرف مصائب و آلام دور کر کے شاد کام کر دے پھر کبھی وہ کفار کو ڈھیل دیتا ہے، ان پر بارش برساتا ہے، ان کے مال و اولاد میں ترقی دیتا ہے ﴿سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ (اعراف:۱۸۲) تاکہ یا تو دنیا ہی میں سختی سے پکڑے جائیں اور یا آخرت میں دوہرے عذاب میں گرفتار ہوں ۔ یاد رکھنا چاہیے ہر خوشی نعمت نہیں ہے اور نہ ہر سختی عقوبت ہے۔ فرمایا: ﴿فَاَمَّا الْاِِنسَانُ اِِذَا مَا ابْتَلٰـہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْ اَکْرَمَنِo وَاَمَّآ اِِذَا مَا ابْتَلٰہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَہَانَنِo﴾ (الفجر:۱۵۔۱۶)