کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 89
’’ایمان والو! عدل کو خوب قائم کرنے والے اوراللہ کے گواہ بنو۔‘‘
اور :
﴿وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا ﴾ (الانعام:۱۵۲)
’’ جب کہو تو انصاف کرو۔‘‘
اور
﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ﴾ (الحدید:۲۵)
’’ہم نے اپنے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف سے رہیں ۔‘‘
جن لوگوں کے یہاں ابدال کی اصطلاح رائج ہے اس سے انہوں نے چند معانی مراد لیے ہیں ۔ ’’ابدال‘‘ بدل کی جمع ہے اور ان کی اصطلاح میں ابدال کو ابدال اس لیے کہتے ہیں کہ جب ان میں سے کوئی مر جاتا ہے تو اللہ اس کی جگہ دوسرے کے لیے بدل دیتا ہے۔ یااس لیے کہ ابدال نے اپنے اخلاق و اعمال و عقائد کی برائیاں حسنات سے بدل دی ہیں ۔ لیکن ظاہر یہ ہے یہ صفت چالیس یا کم زیادہ سے مخصوص نہیں اور نہ کسی ایک سر زمین کے باشندوں میں محدود ہو سکتی ہے۔ اسی قسم کے معانی ’’ نجبا‘‘ کی اصطلاح میں بھی مراد لیے جاتے ہیں ۔
ان اصطلاحوں کو علی الاطلاق نہ تسلیم کرنا چاہیے نہ بالکل رد کر دینا چاہیے کیونکہ ان کے معانی میں بعض معنی درست ہیں اور بعض غلط اور کتاب و سنت و اجماع سے باطل ہیں مثلاً بعضوں نے غوث کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ اللہ کے اس واسطہ سے انسانوں کی روزی و تنگی اور تکلیف و مصیبت میں مدد و نصرت کرتا ہے حالانکہ یہ خیال اسلام کے خلاف اور نصاریٰ کے عقیدہ کے مشابہ ہے جو وہ اس باب کے متعلق رکھتے ہیں کہ جس کا کہیں کوئی پتہ نہیں یا امام منتظر کے عقیدہ کی طرح ہے جو اب سے چار سو چالیس سال پہلے غار میں جا کر غائب ہو گیا۔