کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 88
’’مسلمانوں کے سب سے اچھے گروہ پر ایک مارق [1] جماعت خروج کرے گی جسے وہ قتل کرے گا جو طرفین میں زیادہ حق پر ہو گا۔‘‘
اہل شام نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی۔ امیرالمومنین اور آپ کے ساتھی اولیٰ بالحق تھے اور اس طرح اہلِ شام سے افضل تھے پھر اس جنگ میں شرکت کرنے والے صحابہ میں حضرت علی کے ساتھی صحابہ مثل عمار و سہل بن حنیف رضی اللہ عنہم وغیرہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف کے صحابہ مثل عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے افضل تھے، اگرچہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وغیرہ جنہوں نے جنگ سے پرہیز کیا طرفین کے صحابہ سے افضل تھے۔ بنا بریں کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ابد ال جو افضل خلق ہیں سب کے سب شام میں ہوں اور کہیں نہ پائے جائیں یہ قطعاً باطل ہے، بلاشبہ شام اور اہل شام کے لیے بھی فضائل آئے ہیں جو اپنی جگہ پر ثابت ہیں مگر اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک حد اور درجہ مقرر کر دیا ہے جس سے تجاوز کرنا خلافِ دانش ہے،گفتگو ہمیشہ علم اور انصاف کے ساتھ ہونی چاہیے نہ کہ اٹکل اور نا انصافی سے، کیونکہ دین میں جو کوئی بغیر علم کے گفتگو کرتا ہے اللہ کے اس قول میں داخل ہے:
﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ﴾ (بنی اسرائیل:۳۷)
’’اس چیز کے پیچھے نہ چل جس کا تجھے کچھ علم نہیں ۔‘‘
اور :
﴿وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ:۱۶۹)
’’اور اسے اللہ پر تھونپ دوجوتم نہیں جانتے۔‘‘
اور جو عدل و انصاف چھوڑ کر گفتگو کرتا ہے اللہ کے اس قول سے باہر ہے کہ:
﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ ﴾ (النساء:۱۳۵)
[1] خارجی، دین سے خارج ہونے والی جماعت۔ بیان اللسان ص ۶۷۹۔