کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 87
فصل (۱۰): قطب اور ابدال وغیرہ
رہا لفظ’’ قطب‘‘ تو وہ بھی صوفیہ کے کلام میں ملتا ہے۔ کہتے ہیں فلاں قطب ہے، مگر اس میں بھی کسی خاص تعداد کی قید نہیں ، ہر وہ شخص جس پر دین کا یا دنیا کا معاملہ ظاہرمیں یا باطن میں موقوف ہو اس معاملہ کا قطب ہے۔ عام اس سے کہ وہ معاملہ اس کے اپنے گھر کا ہو یا گاؤں کا، شہر کا ہو یااس کے دین یا یا دنیا کا، ظاہر میں ہو یا باطن میں ۔ ظاہر ہے اس بارے میں بھی سات یا کم زیادہ کی کوئی قید نہیں ، کیونکہ ممکن ہے کسی زمانہ میں دو یا تین شخص اللہ کے نزدیک مساوی درجہ کے ہوں اور یہ ضروری نہیں کہ ہر معاملہ میں صرف ایک ہی یا چار ہی شخص ایسے پائے جائیں جو دنیا بھر سے افضل ہوں لیکن قطبوں میں وہی شخص محمود ہے جو صلاحِ دین کا قطب ہو نہ کہ صرف دنیا کا۔ صوفیہ کے عرف میں قطب کے یہی معنی ہیں ۔
اس طرح لفظ ’’ بدل‘‘ و ’’ابدال‘‘ بھی بہت سے صوفیہ کے کلام میں آیا ہے۔
رہی حدیث مرفوع:
(( اِنَّ فِیْھِمُ الْاَبْدَالُ اَرْبَعِیْنَ رَجُلاً کُلَّمَا مَاتَ مِنْھُمْ رَجُلٌ أَبْدَلَہُ اللّٰہُ مَکَانَہٗ رَجُلاً ۔))
تو اغلب یہ ہے کہ کلام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں کیونکہ حجاز و یمن میں ایمان اس وقت سے تھا جب شام و عراق فتح بھی نہیں ہوئے تھے اور سراسر بلاد کفر و شرک تھے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس نبوی پیش گوئی نے واقع ہو کر اس قسم کی تمام باتوں کا فیصلہ کر دیا کہ :
((تَمْرُقُ مَارِقَۃٌ عَلیٰ خَیْرِ فِرْقَۃٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَقْتُلُھُمْ اَوْلیٰ الطَّائِفِتَیْنِ بِالْحَقِّ)) (نسائی)