کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 85
عُنُقِ رَاحِلَتِہٖ۔)) ’’قابو میں رہو، تم کسی بہرے اور غیر موجود کو نہیں پکار رہے ہو، بلکہ سمیع و قریب کو پکارتے ہو، جسے تم پکارتے ہو وہ تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تم سے قریب ہے۔‘‘ یہ بات واضح ہے اور تمام مسلمانوں نے پوری طرح جان لیا ہے، کہ ان کی اور ان کے مشائخ کی حاجتیں براہِ راست اللہ تعالیٰ کے حضور میں پہنچ جاتی ہیں اور یہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے اور اس کے مابین ظاہر میں یا باطن میں کوئی واسطہ یا حاجب قرار دے، کیونکہ اللہ مخلوق کی مشابہت سے برتر و اعلیٰ و منزہ ہے، وہ معاذ اللہ جباروں اور بادشاہوں کی طرح نہیں کہ اپنے در پر حاجب اور مخبر کھڑے کر ے، اس کا در ہمیشہ کھلا ہے اور اس کی نظریں دلوں کی گہرائیوں تک دیکھ رہی ہیں ۔ اور یہ اعتقاد روافض کے اعتقاد کی قسم سے ہے کہ ہر زمانہ میں ایک امام معصوم کا ہونا ضروری ہے جو تمام مکلفین پر حجت ہو اور جس کے بغیر ایمان کامل نہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ امام ایک بچہ ہے اور چار سو چالیس سال پہلے ایک غار میں جا کر ایسا غائب ہوا کہ اب اس کاکوئی پتہ نشان نہیں ملتا۔ جو لوگ اولیاء اللہ میں یہ مراتب قائم کرتے ہیں اس لحاظ سے وہ ایک حد تک روافض سے مشابہ ہیں بلکہ یہ ترتیب و تعداد بعض وجوہ سے اسماعیلیہ و نصیریہ وغیرہ گمراہ فرقوں کی ترتیب و تعداد سے مشابہ ہے جو انہوں نے ’’سابق ثانی، ناطق، اساس، جسد‘‘ وغیرہ کی اصطلاحوں میں قرار د ی ہے کہ جس کی کوئی بنیاد نہیں ۔ رہے’’ اوتاد‘‘ تو بعض صوفیہ کے ہاں یہ لفظ ملتا ہے،چنانچہ کہتے ہیں فلاں اوتاد میں سے ہے، اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ ان کے ذریعہ مخلوق کے دلوں میں دین و ایمان اسی طرح مضبوط کر تا ہے جس طرح اس نے زمین اوتاد( میخ مراد پہاڑ) کے ذریعہ مضبوط کر دی ہے، مگر اس میں بھی کسی خاص عدد یا جماعت کی تخصیص نہیں بلکہ ہر اس شخص پر اس کا اطلاق ہو سکتا