کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 84
﴿اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ ﴾ (النمل:۲۶)
’’ لاچار کی دعا کو ن سنتا ہے جو وہ اسے پکارتا ہے۔‘‘
پس یہ کیونکر ممکن ہے کہ مومن اپنی حاجتیں اتنے واسطوں سے اس علام الغیوب تک پہنچائیں ؟ حالانکہ وہ فرماتا ہے:
﴿وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ﴾ (البقرۃ:۱۸۶)
’’جب تجھ سے میرے بندے میری بابت سوال کریں تو میں قریب ہوں ، پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں ، پس چاہیے کہ میرے حق کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ بھلائی پائیں ۔‘‘
خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام نے اہل مکہ کے لیے دعا کرتے ہوئے یہی حقیقت بیان فرمائی ہے:
﴿رَبَّنَآ اِنَّکَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَ مَا نُعْلِنُ وَ مَا یَخْفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَ ہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآء﴾ (ابراہیم:۳۸، ۳۹)
’’اے ہمارے رب! تو جانتا ہے اسے جو ہم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہیں ، اللہ سے زمین و آسمان میں کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے، تمام ستائش ہے اس اللہ کے لیے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق بخشے ، میرا رب دعا سننے والاہے۔‘‘
اور خاتم النّبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو چلا چلا کر تنبیہ کرتے دیکھ کر فرمایا:
((اِرْبَعُوْا عَلیٰ اَنْفُسِکُمْ فَاِنَّکُمْ لَا تَدْعُوْنَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا وَاِنَّمَا تَدْعُوْنَ سَمِیْعًا قَرِیْبًا اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَہٗ اَقْرَبُ اِلیٰ اَحَدِکُمْ مِّنْ