کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 83
مدینہ؟ وہ جو دارِ ہجرت و سنت ونصرت تھا، مستقرِنبوت تھا، وہیں خلفائے راشدین: ابو بکر و عمر و عثمان وعلی رضی اللہ عنہم کی بیعت منعقد ہو گئی( گو حضرت علی بعد میں باہر چلے گئے) پس بقول ان کے’’غوث‘‘ مکہ ہی میں کیونکر ہو سکتا ہے، جب کہ یہ خلفائے راشدین مدینہ میں تھے، اپنے زمانہ میں سب سے افضل تھے اور مکہ میں کوئی شخص بھی ان سے بلند رتبہ نہ تھا۔ پھر اسلام دنیا کے ایک سرے سے دوسرے تک پھیلا اور مومنین صادقین اولیاء اللہ المتقین بلکہ صدیقین السابقین المقربین ہر زمانہ میں موجود تھے، نہ صرف تین سو، نہ صرف تین ہزار بلکہ اتنے جن کا شمار بجز خدا کے کوئی نہیں کر سکتا۔ جب خیر القرون ختم ہو گئیں تو قرون خالیہ میں بھی اولیاء اللہ المتقین بلکہ سابقین بکثرت موجود رہے جن کی تعداد کو صرف تین سو میں محدود کرنے والا دانستہ یا نادانستہ ان پر ظلم کرتا ہے۔ ’’غوث‘‘ اور ’’غیاث‘‘ کا مستحق بجز خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا، وہی قادر و قوی ’’غیاث الْمُسْتَغِیْثِیْنَ‘‘ ہے۔ وہی ’’ غَوْثُ الْمَنْکُوْبِیْنَ‘‘ ہے کسی کے لیے جائز نہیں کہ اسے چھوڑ کر کسی ماسوا سے استغاثہ کرے، نہ مقرب فرشتہ سے، نہ نبی مرسل سے، نہ ولی سے۔ اور جوکوئی یہ کہتا ہے کہ زمین والوں کی دعائیں مرادیں منتیں پہلے تین سے نجباء کے پاس پہنچتی ہیں اور وہ انہیں ستر کے سامنے لے جاتے ہیں اور یہ ستر چالیس ابدال کے سامنے اور ابدال سات قطب کے سامنے اور قطب چار اوتار کے سامنے اور وہ غوث کے سامنے تو ایسا شخص جھوٹا ہے، گمراہ ہے، مشرک ہے۔ مشرکوں کی حالت اللہ نے یہ بیان کی ہے: ﴿وَ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ ﴾ (بنی اسرائیل:۶۷) ’’جب تمہیں سمندر میں تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ کے سوا جسے پکارتے ہو گم ہو جاتا ہے۔‘‘ اور فرمایا: