کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 82
کی تصدیق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ امت اگلی امتوں کے نقش قدم پر چلے گی۔ اہلِ کتاب کی اگلی امتوں نے بھی اسی طرح حق کو باطل سے ملا دیا تھا اور یہی وہ تحریف و تبدل ہے جو ان کے دین میں واقع ہوئی اور اسی وجہ سے پرانے دین بدلتے رہے۔ کبھی تبدیل و ترمیم کے ذریعہ اور کبھی ابطال و نسخ کے ذریعہ۔ لیکن یہ دین کبھی منسوخ ہونے والا نہیں ، البتہ اس میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اس کے اندر تحریف و تبدیل و کذب و کتمان کے ذریعہ حق کو باطل سے ملا دیں گے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگ بھی پیدا کرتا رہے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کا فرض ادا کر کے خلق پر حجت قائم کریں گے، دین کو اہلِ غلو کی تحریف، باطل پرستوں کے افتراء اور جاہلوں کی تاویل سے پاک کریں گے۔ ﴿لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَ یُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ﴾ (الانفال:۸) پس یہ اسماء والقاب اس تعداد و ترتیب درجات کے ساتھ ہر زمانہ میں حق نہیں بلکہ ان کا عموم واطلاق صاف طور پر باطل ہے کیونکہ مومن کبھی کم ہوں گے اور کبھی زیادہ، ان میں کبھی ’’سابقون المقربون‘‘ کی تعداد کم ہو گی اور کبھی بڑھ جائے گی ۔ پھر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی ہوں گے ، کیونکہ مومنین و متقین اولیاء اور ان میں سے جنہیں سابقون المقربون کا درجہ ملا ہے ان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ ایک ہی مقام پر رہیں اور اپنی جگہ سے نہ ہلیں اور عملاً یہ واقع بھی ہو چکا ہے چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو مکہ میں صرف چند ہی آدمی ایمان لائے جو شروع میں سات سے بھی کم تھے، پھر چالیس سے کم تھے، پھرستر سے کم تھے پھر تین سو سے کم تھے۔ پس معلوم ہو ا کہ مومنین اولین کی تعداد اتنی بھی نہ تھی جتنی یہ لوگ ان اسماء والقاب کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان میں کفار و مشرکین کا شمار نہیں ہو سکتا۔ مکہ کی زندگی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے مدینہ کو ہجرت کی ، کون