کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 81
فصل (۹): اولیاء کے القاب
رہے وہ اسماء و القاب جو اکثر نساک و عوام کی زبانوں پر حاوی ہیں مثلاً ’’غوث‘‘ (جس کے متعلق دعویٰ ہے کہ مکہ میں ہو گا) چار’’ اوتاد‘‘ …سات قطب… چالیس ’’ابدال‘‘ تین سو ’’ نجباء‘‘ …تو یہ اسماء نہ کتاب اللہ میں وارد ہیں اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں اور نہ اسناد صحیح سے، نہ ضعیف محتمل سے البتہ’’ ابدال‘‘ کے متعلق حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِنَّ فِیْھِمْ (یَعْنِیْ اَھْلَ الشَّامِ) اَ لْاَبْدَالُ اَرْبَعِیْنَ رَجُلاً کُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ اَبْدَلَہُ اللّٰہُ مَکَانَہٗ رَجُلاً۔))
’’ان میں ( شامیوں میں ) ابدال ہیں جب بھی ان میں کوئی مرتا ہے اللہ اس کی جگہ دوسرے کو بدل دیتا ہے۔‘‘
پھر یہ اسماء اس ترتیب کے ساتھ کلام سلف میں موجود نہیں اور نہ اس ترتیب و معنی سے ان مشائخ کے کلام میں وارد ہیں جنہیں امت میں قبول عام حاصل ہے وہ اپنی موجودہ صورت میں صرف مشائخ متوسطین کے ہاں ملتے ہیں ۔ یہ اور ایسے ہی بہت سے امور ہیں جو اکثر متاخرین پر مشتبہ ہو گئے ہیں کیونکہ ان میں حق و باطل بری طرح مل جل گئے ہیں ، ان میں ایک حصہ حق کا ہے جس کا قبول کرنا ضروری ہے اور ایک باطل کا ہے جسے رد کر دینا چاہیے مگر اکثر لوگ افراط و تفریط میں پڑگئے ہیں ، چنانچہ ایک گروہ نے باطل حصہ دیکھ کر پوری بات کی تکذیب کر دی اور دوسرے گروہ نے حق دیکھ کر پورے طور پر تصدیق کر دی، حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ حق کی تصدیق اور باطل کی تکذیب کی جاتی۔ یہ حالت بھی اس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پیشین گوئی