کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 80
اس پر جواب ملا:
﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ﴾ (الجمعۃ:۲۱)
’’یہ اللہ کا فضل ہے جس پر چاہے کرے۔‘‘
یہ ہے مراد کتا ب وسنت میں ’’ فقیر‘‘ اور’’ فقراء‘‘ سے، نہ وہ جو گمراہ بیان کرتے ہیں ۔ پھر تمام فقراء کا جنتی ہونا بھی ضروری نہیں کیونکہ مالداروں کی طرح روحانیت میں ان کے بھی درجے ہیں ، بعض سابقین ہیں ،بعض مقتصدین اور بعض ظالمین لانفسھم فریقین مومن تصدیق بھی ہیں اور منافق زندیق بھی اس لیے کسی جماعت پر کوئی عام حکم لگانا روا نہیں ۔
متاخرین کے عرف میں صوفی کی طرح فقیر بھی سالک الیٰ اللہ کا نام ہے، پھر ان میں بعض لفظ صوفی کو ترجیح دیتے ہیں اور بعض فقیر کو کیونکہ ان کے نزدیک صوفی وہ ہے جس نے تمام تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور ظاہر میں واجبات کے علاوہ اپنے تئیں کسی چیز سے مقید نہیں رکھا۔ لیکن یہ لفظی اختلافات ہیں اور تحقیق یہ کہ دونوں لفظوں سے وہی معنی مراد ہیں جو ’’محمود‘‘ ’’صدیق‘‘ ’’ولی‘‘ یا ’’صالح‘‘ وغیرہ الفاظ کے ہیں جو کتاب و سنت میں وارد ہیں اور وہی حکم رکھتے ہیں جو شریعت نے مقرر کر دیا ہے۔
رہے وہ مباحات جنہیں فضیلت سمجھا جاتا ہے اور جن کی حقیقت میں کوئی خاص فضیلت نہیں یا وہ امورجن سے دنیا میں قدر و منزلت بڑھتی ہے تو ان سے امتیاز حاصل کرنا یا انہیں دوسروں کی امداد کرنا کوئی بڑی چیز نہیں ،کیونکہ شریعت میں یہ عام اور معمولی بات ہے الا یہ کہ مباح کو مستحب قرار دے لیا جائے تو اس کا حکم دوسرا ہے لیکن وہ امور جو شریعت میں مکروہ ہیں مثلاً بدعت و فجور تو ان سے آلودہ ہونا ہر حالت میں ناجائز اور ان سے دوسروں کو روکنا واجب ہے جیسا کہ شریعت کا حکم ہے۔