کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 79
ان کے برخلاف’’ اغنیاء‘‘ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ان کی بھی دو قسمیں ہیں ۔ ایک وہ لوگ ہیں جن پر زکوٰۃ واجب ہے، اگر چہ جمہور علماء کے نزدیک زکوٰۃ کبھی ان لوگوں پر بھی واجب ہو جاتی ہے جن کے لیے خود زکوٰۃ لینا جائز ہے اور دوسرے وہ لوگ ہیں جن پر زکوٰۃ واجب نہیں ۔ دونوں گروہوں کے پاس کبھی ان کے ضروری مصارف کے بعدکچھ بچ رہتا ہے۔ ان کے متعلق قرآن میں ہے: ﴿یَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ﴾ (البقرۃ:۲۱۹) ’’وہ پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ کہو زائد از ضرورت مال۔‘‘ اور کبھی نہیں بچتا اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے صرف قوت لایموت اور کفایتِ عیش دیا ہے، اس طرح ایک طرف یہ لوگ ’’ غنی‘‘ ہیں کیونکہ دوسروں سے مستغنی ہیں اور دوسری طرف ’’ فقیر ‘‘ ہیں کیونکہ اتنا نہیں رکھتے کہ صدقہ دے سکیں اور یہ جوکہا گیا کہ فقراء اغنیاء سے آدھے دن پہلے جنت میں پہنچ جائیں گے تو اس لیے کہ ان کے پاس زائد مال نہیں کہ جس کی آمدنی و خرچ کا حساب کتاب دینا ہو۔لہٰذا ہر وہ شخص جس کے پاس کفاف سے زیادہ نہیں ، ان فقیروں میں سے ہو سکتا ہے جو مالداروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ علی الاطلاق فقراء اغنیاء سے افضل ہیں کیونکہ مالدار اپنا مال رضائے الٰہی میں صرف کرتے ہیں تو جنت میں داخل ہو نے کے بعد ممکن ہے کہ ان فقراء سے جو پیش قدمی کر کے پہلے پہنچ گئے اعلیٰ درجہ حاصل کرلیں ۔ بلکہ یہ یقینی ہے کیونکہ دولت مند صدیقین، سابقین فقراء سے (جو ان سے کم رتبہ ہیں ) بلا نزاع سبقت لے جائیں ۔ اسی لیے تو فقراء نے جب دیکھا کہ اغنیاء عباداتِ بدنیہ میں ان کے برابر ہو گئے اور عباداتِ مالیہ میں ان سے بازی لے گئے تو کہا: ((ذَھَبَ اَھْلُ الدُّثُوْرِ بِالْأُجُوْرِ۔)) (بخاری ) ’’مالدار تمام ثواب لے گئے۔‘‘