کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 78
فصل (۸): فقراء رہے ’’ فقراء‘‘ جن کا ذکر کتاب اللہ میں وارد ہے تو ان کی دو قسمیں ہیں : مستحقین صدقات اور مستحقینِ فے۔ مستحقینِ صدقات کا ذکر اس آیت میں ہے: ﴿اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِیَ وَ اِنْ تُخْفُوْہَا وَ تُؤْتُوْہَا الْفُقَرَآئَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ یُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ (بقرۃ:۲۷۱) ’’اگر تم خیرات ظاہر کرو اچھی ہے اور اگر اسے چھپاؤ اور فقیروں کو دے دو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ اور یہ دور کر دے گا تم سے تمہاری برائیاں اور اللہ تمہارے عملوں سے باخبر ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ ﴾ (التوبۃ:۶۰) ’’خیراتیں فقراء و مساکین کے لیے ہیں ‘‘ قرآن میں جہاں جہاں صرف ’’ فقراء ‘‘ یا صرف ’’مسکین ‘‘ کا لفظ آتا ہے جیسے آیت ﴿اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ ﴾ (المائدہ:۸۹) تو دونوں لفظوں سے ایک ہی قسم کے لوگ مراد ہوتے ہیں ۔مگر جب دونوں ایک ساتھ ذکر کیے ہیں تو ان سے مقصود الگ الگ لوگ ہوتے ہیں لیکن بہر حال دونوں سے غرض ایک ہی ہے یعنی وہ محتاج جو نہ اپنی روزی رکھتے ہیں نہ کمانے کی قدرت۔ جس مسلمان کی بھی یہ حالت ہو وہ مسلمانوں کے جملہ صدقات کا مستحق ہے۔ فقہا میں اس مسائل کے بعض فروع میں اختلاف ہے جو اہلِ علم سے مخفی نہیں ۔