کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 76
مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ’’ وَلَا مُحَدَّثٍ‘‘ اِلَّآ اِذَا تَمَنّٰٓی اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہٖ﴾ لیکن اس قراء ت میں بھی (واللہ اعلم) احتمال ہے کہ نسخ القاء شیطان محدث شامل نہ ہو کیونکہ نسخ کی یہ صورت صرف انبیاء و مرسلین کے لیے مخصوص ہے،ا س لیے کہ تنہا وہی معصوم ہیں اور وہ بھی صرف تبلیغِ شریعت میں کہ جس میں شیطان کا القا ہونا درست نہیں ۔ باقی رہے اور لوگ تو کسی کا بھی معصوم ہونا ضروری نہیں اگرچہ وہ اولیاء اللہ متقین ہی کیوں نہ ہو ں کیونکہ اولیاء اللہ ہونے کے لیے یہ شرط نہیں کہ کسی بات میں بھی قابلِ معافی غلطی نہ کریں بلکہ علی الاطلاق ترکِ صغائر بھی ان کے لیے شرط نہیں بلکہ ترکِ کبائر حتیٰ کہ وہ کفر بھی جس کے بعد توبہ ہو شرط نہیں چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَo لَہُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ذٰلِکَ جَزَآئُ الْمُحْسِنِیْنَo لِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَیَجْزِیَہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo﴾ (الزمر: ۳۳ تا ۳۵)
’’جو سچائی کو لایا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی متقی ہیں ان کے رب کے ہاں ان کے لیے وہ سب ہے جو وہ چاہیں گے یہ نیک کرداروں کا بدلہ ہے تاکہ اللہ ان کے سب سے بد تر عمل کو دور کر دے اور انہیں ان کے سب سے اچھے عمل کا بدلہ دے۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک طرف’’ متقی ‘‘ قرار دیا ہے اور متقی ہی اولیاء اللہ ہوتے ہیں لیکن باوجود اس کے وہ گناہ کرتے ہیں اور ﴿لِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا﴾ وہ ان کے بد ترین اعمال بھی معاف کر دیتا ہے۔ اس مسئلہ میں تمام اہل علم و ایمان متفق ہیں اور اگر کچھ خلاف ہے تو غالی روافض اور امثال روافض کا ہے جو مشائخ میں حد درجہ غلوکرتے ہیں ۔ چنانچہ روافض کا اعتقاد ہے کہ ائمہ اثنا عشر غلطی اور گناہ سے معصوم ہیں بلکہ انہوں نے اسے