کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 75
المحدثین المخاطبین الملہمین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خود بارہا ایسے حالات و واقعات پیش آجاتے تھے جنہیں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صدیق و متبع و تابع ( جو محدث سے افضل درجہ ہے) کے سامنے رکھنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ظاہر ہے اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر ولی کتاب و سنت کے اتباع سے مستغنی نہ ہو سکتے تھے تو پھر اور کون ہو سکتا ہے؟ بنا بریں تمام نوعِ انسانی پر رسول کی اتباع و اطاعت تمام ظاہری و باطنی امور میں واجب کر دی گئی اور اگر ایسا ہوتا کہ کسی کے پاس اللہ کی طرف سے ایسی خبریں آیا کرتیں جنہیں کتاب و سنت پر پرکھنے کی ضرورت نہ ہوتی تو وہ بلاشبہ اپنے دین و طریقہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مستغنی ہوتا۔لیکن صورت واقعہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ گمراہ اور منافق ہی اس قسم کا خیال کر سکتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی حیثیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی ہے جو خضر علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی حالانکہ جو کوئی یہ اعتقاد رکھے کافر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّآ اِذَا تَمَنّٰٓی اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہٖ فَیَنْسَخُ اللّٰہُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ﴾ (الحج:۵۲) ’’تم سے پہلے ہم نے جتنے رسول اور نبی بھیجے جب انہوں نے آرزو کی، شیطان نے ان کی آرزو میں القا کر دیا، پس اللہ شیطان کے القا کو دور کر دیتا ہے پھر اپنی آیتوں کو مستحکم کر دیتا ہے۔ اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ اس آیت کے بموجب اللہ نے صرف اپنے نبیوں اور رسولوں کے لیے ذمہ لیا ہے کہ انہیں شیطان کے القاسے محفوظ رکھے گا لیکن محدث یا ولی کے لیے تو اس کا ذمہ نہیں لیا۔ بلاشبہ ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ بعض صحابہ یہ آیت یوں پڑھا کرتے تھے: ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ