کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 74
دونوں فاسد۔ اسی طرح کہنا پڑے گا کہ وہ کافر جس کا ایمان لانا اللہ کے علم میں محقق ہے اور اس وجہ سے حالتِ کفر میں بھی اس کا محبوب و ولی ہے جب ایمان لے آئے تو اس کے زمانہ کفر کے تمام اعمال عدم محض قرار دے دیے جائیں ۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں کتاب و سنت اور اجماعِ امت کے قطعی خلاف ہیں ۔
پس جو کہتا ہے کہ ولی اللہ وہی ہے جو موت کے وقت ایمان و تقویٰ سے متصف ہے تو اس کا علم خود ولی اور دوسروں کے لیے بہت مشکل ہے۔ا ور جو کہتا ہے کہ ہر متقی مومن ولی اللہ ہو سکتا ہے تو اس کا علم خود ولی اور دوسروں کے لیے نسبتاً آسان ہے لیکن یہ علم بھی بہت کم حاصل ہوتا ہے۔ بنا بریں اس بات میں کسی فیصلہ و حکم کی جرأت درست نہیں البتہ جس کی ولایت و نجات نص سے ثابت ہے۔ مثلاً عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ تو عامہ اہل سنت اس کی ولایت و نجات کی شہادت دیتے ہیں ۔ رہے وہ بزرگ جنہیں امت میں لسان صدق کا مرتبہ حاصل ہے اور تمام مسلمان ان کی مدح و ثنا پر متفق ہیں تو ان کی ولایت کی شہادت کے متعلق اہل سنت میں اختلاف ہے لیکن اولیٰ یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ولایت تسلیم کی جائے۔ یہ حکم عام حالات کا ہے لیکن خواصِ امت کبھی اللہ کے بخشے ہوئے کشف کے ذریعہ بعض لوگوں کا انجام معلوم کر سکتے ہیں کہ فلاں ولی ہے یا نہیں ۔مگر کشف کا معاملہ ایسا نہیں ہے جس کی عام تصدیق واجب ہو کیونکہ بسا اوقات اس میں غلطی بھی ہو جاتی ہے۔صاحب کشف سمجھتا ہے کہ کشف ہو گیا حالانکہ حقیقت میں وہ محض ایک ظن ہوتا ہے اور حق سے کوسوں دور اور یہ کچھ بھی عجیب نہیں ۔ اصحاب مکاشفات و مخاطبات بھی کبھی اسی طرح وہم اور غلطی کا شکار ہو جاتے ہیں جس طرح اہلِ علم و استدلال کو اجتہاد میں ٹھوکر لگتی ہے اسی لیے سب لوگوں پر عام اس سے کہ اصحاب کشف ہوں یا اصحابِ نظر،واجب ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مضبوطی سے پکڑیں ، اپنے مواجید و مشاہدات و آراء و معقولات کو کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھیں اور اس سے بے نیاز ہو کر صرف اپنی ذات پر بھروسہ نہ کرلیں چنانچہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سید