کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 73
اس سے اس کی محبت و ولایت و رضامندی ازل و ابد میں متعلق ہو گئی اسی طرح جس کے متعلق اللہ کا علم ہے کہ موت کے وقت کافر ہو گا، اس سے اس کی نفرت وعداوت و ناراضی ازل و ابد میں متعلق ہو گئی لیکن بایں ہمہ اللہ اس کا سابق کفر و فسق نا پسند کرتا ہے اور اسی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ خود اسے نا پسند کرتا ہے کیونکہ وہ ان افعال سے نفرت کرتا ہے اور ان سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ نیز ایمان و تقویٰ کی قسم سے ان افعال ہی کی ہدایت کرتا ہے جو اس شخص نے بعد کو اختیار کیے اور ظاہر ہے جس بات کا وہ حکم دیتا ہے اس سے محبت کرتا اور خوش ہوتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ تمام امت متفق ہے کہ اگر مومن مرتد ہو جائے تو اس کے سابق ایمان کو نماز، روزہ، حج وغیرہ عبادات کی طرح فاسد قرار نہیں دیا جائے گا جو کمال سے پہلے باطل ہو جاتی ہیں بلکہ ایسی صورت میں وہی حکم لگایا جائے گا جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرما دیا ہے کہ:
﴿وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ﴾ (المائدہ:۵)
’’جو کفر کرے گا اس کا عمل ضائع جائے گا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ﴾ (الزمر:۶۵)
’’ اگر تو شرک کرے گا تو تیراعمل ضرور ضائع جائے گا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَ لَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (الانعام :۸۸)
’’اگر وہ شرک کرتے تو ضرور ان کے عمل ضائع جاتے۔‘‘
ورنہ اگر ایمان اول فاسد قرار دیا جائے تو واجب ہو گا کہ اس کے تمام سابق اعمال بھی غیر معتبر ہو جائیں ۔ تمام نکاح فاسد، تمام ذبیحے حرام اور تمام عبادتیں باطل قرار دی جائیں حتیٰ کہ اس نے کسی کی طرف سے حج کیا ہے تو حج باطل اور اگر نماز میں امام رہا ہے تو مقتدیوں کی تمام نمازیں باطل، ان کا اعادہ ضروری اور اگر شہادت دی یا فیصلہ کیا ہے تو یہ شہادت اور فیصلہ