کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 72
کرتے اور اس طرح سبقت و قربت کی لازوال دولت سے مالا مال ہو جاتے ہیں ۔ سورۂ فاطر، واقعہ، دہر اور مطففین میں ان جماعتوں کا ذکر موجود ہے اور اللہ نے خبر دی ہے کہ جس شراب سے مقرب ہمیشہ سیراب ہوا کریں گے اس سے اصحابِ یمین کی شراب مزوج کی جائے گی۔ ولی مطلق وہ ہے جو زندگی کے آخری لمحہ تک ایمان و تقویٰ و صلاح پر مضبوطی سے قائم رہا اور اسی پر اس جہاں سے رخصت ہوا۔ لیکن وہ شخص جو ایمان و تقویٰ رکھتا ہے مگر علمِ الٰہی میں محقق ہے کہ آخر تک ثابت قدم نہ رہے گا توکیا ایمان و تقویٰ کی حالت میں وہ اللہ کا ولی قرار دیا جائے گا یا کہا جائے گا کہ وہ کبھی بھی ولی نہ تھا کیونکہ اللہ کو اس کا خاتمہ معلوم تھا؟ اس مسئلہ میں علماء کا ویسا ہی اختلاف ہے جیسے کہ اس ایمان کی صحت میں جس کے بعد کفر ہو بعض ایسے ایمان کو صحیح قرار دیتے ہیں اور ان اعمال پر قیاس کرتے ہیں جو کامل ہونے کے بعد باطل ہوجاتے ہیں اور بعض اسے سرے سے باطل قرار دیتے ہیں اور اسے روزہ اور نماز پر قیاس کرتے ہیں جو غروب سے یا سلام سے پہلے فاسد ہو جائے۔ اس مسئلہ میں فقہا و متکلمین صوفیہ کے دو قول مروی ہیں ۔ اہلِ سنت و حدیث اور اصحابِ احمد میں بھی نزاع ہے اصحابِ مالک رحمہ اللہ و شافعی رحمہ اللہ اسے شرط بتاتے ہیں ۔ یہی رائے متکلمین شیعہ میں سے ایک بڑی جماعت کی بھی ہے اس نزاع پر اس مسئلہ کی بھی بنیاد رکھتے ہیں کہ آیا ولی اللہ کبھی عدو اللہ اور عدو اللہ کبھی ولی اللہ ہو جاتا ہے اور آیا جس سے اللہ نے ایک مرتبہ محبت کی اور راضی ہوا کیا اس سے کبھی ناخوش بھی ہو جاتا ہے؟ اسی طرح جس سے اللہ ناراض ہوا کیا پھر کبھی اس سے محبت بھی کرتا ہے؟ اس بارے میں بھی علماء کے وہی دو قول موجود ہیں جو اوپر بیان ہوئے۔ لیکن تحقیق یہ ہے کہ دونوں قولوں کو جمع کر دیا جائے کیونکہ علمِ الٰہی قدیم ازلی ہے اور اس میں جو کچھ ہے عام اس سے کہ محبت و رضا مندی ہو یا بغض و ناراضی، ہرگز بدلنے والا نہیں پس جس کے متعلق اللہ کے علم میں ہے کہ موت کے وقت ایمان و تقویٰ سے متصف ہو گا تو