کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 71
’’کیا تم اسے(شیطان) اور اس نسل کو مجھے چھوڑ کر(دوست) ٹھہراتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ۔‘‘
صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جس نے کسی میرے ولی سے عداوت کی اس نے خود مجھ سے علانیہ جنگ چھیڑ دی۔ کسی کام میں مجھے اتنا پس و پیش نہیں ہوتا جتنا اپنے اس مومن بندے کی روح قبض کرنے میں ہوتا ہے جسے موت نا پسند ہے۔کیوں کہ میں اسے تکلیف دینا پسند نہیں کرتا حالانکہ موت اس کے لیے ضروری ہے۔ سب سے زیادہ جس چیز سے میرا بندہ مجھ سے قربت حاصل کر سکتا ہے،میرے فرائض کی ادائیگی ہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعہ مجھے سے برابر نزدیک ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اورجب میں محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ،اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ حملہ کرتا ہے، اس کا پاؤں ہوتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، پس وہ مجھی سے سنتا ہے،مجھی سے دیکھتا ہے، مجھی سے حملہ کرتا ہے، مجھی سے چلتا ہے’’ولی‘‘ ولیّ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں قرب و نزدیکی۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ’’عدو‘‘ ’’عدوٌ‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں بعد و دوری پس اللہ کا ولی وہی ہے جو محبوبات و مرضیات میں اس کی موافقت واطاعت کے ذریعہ اس سے قرب و نزدیکی حاصل کرتا ہے۔
مذکورہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو گروہ ذکر کیے ہیں : مُقْتَصِدُوْنَ اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ ’’یعنی جو لوگ واجبات کے ذریعہ اس کی قربت حاصل کرتے ہیں اور ’’سابقون المقربون‘‘اور یہ وہ خوش نصیب ہیں جو واجبات کے بعد نوافل[1] بھی پورے
[1] نوافل و واجبات و فرائض سے مقصود صرف’’ نمازیں ‘‘نہیں بلکہ تمام اعمال صالحہ مراد ہیں عام اس سے کہ عبادات ہوں یا حقوق العباد وغیرہ۔