کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 68
ہے جو مکی سورت ہے اور معلوم ہے کہ مکہ میں اصحابِ صفہ نہ تھے۔ یہی مفہوم سورہ انعام کی اس آیت کا ہے:
﴿وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ وَّ مَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْئٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ (الانعام: ۵۲)
’’اور ان لوگوں کو نہ ہانک دے جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے اس کی رضا چاہتے ہیں ان کے حساب میں کچھ بھی تجھ پر نہیں ہے اور نہ تیرے حساب میں سے کچھ ان پر ہے ورنہ اگر تو انہیں ہانک دے توظالموں میں سے ہو جائے گا۔‘‘
ان دونوں آیتوں کا شانِ نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب متکبر سردارانِ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ کمزور اور غریب مسلمانوں کو اگر آپ علیحدہ کر دیں تو ہم پاس آئیں مگر ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے سے منع کیا اور حکم دیا ہے کہ باوجود غربت و کمزوری ان مومنین صادقین کا ساتھ نہ چھوڑیں جو رضائے الٰہی کے بھوکے پیاسے ہیں اورا ہل ریاست و دولت کی طرف نہ جھکیں جو غریبوں اور کمزوروں کو ذلیل سمجھ کر دور کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ کی نظر میں امیر وغریب اور زبردست و زیردست سب برابر ہیں ۔ وہاں کوئی اپنی طاقت ومال کے زور سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور نہ اپنی بیچارگی و مسکینی کی وجہ سے گر سکتا ہے ۔بلکہ جو چیز اس دربار میں مقبول و مطلوب ہے وہ ایمانِ صحیح اور عملِ صالح ہے۔ پس حکم دیا کہ ان مومنین صادقین کو بد ستور ساتھ رکھو اور مغروروں اور غافلوں کی کچھ بھی پروا نہ کرو۔ یہ واقعہ ہجرتِ مدینہ سے پہلے کا ہے جب نہ اصحابِ صفہ تھے اور نہ خود صفہ کا وجود تھا۔ لیکن چونکہ آیت عام ہے اس لیے اصحابِ صفہ اورجملہ مسلمان اس میں داخل ہو سکتے ہیں ۔