کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 66
یہ کہنا صریح کذب و بہتان ہے کہ اصحابِ صفہ کے لیے کوئی خاص حاد(گویا) تھا جو اصلاح قلوب کے لیے ربانی قصائد گاتا تھا یا یہ کہ ایک مرتبہ انہیں بعض اشعار پر وجد آگیا اور کپڑے پھاڑ ڈالے یا یہ کہ ان کی مجلس میں یہ شعر گائے گئے۔ قَدْ لَسَعَتْ حَیَّۃُ الْھَوٰی کَبْدِیْ ’’عشق کے افعی نے مجھے ڈسا ہے۔‘‘ فَلَا طِیْبَ لَھَا وَلَا رَاقِیْ ’’نہ کوئی اس کا طبیب ہے نہ جھاڑنے والا۔‘‘ اِلَّا طِیْبُ الَّذِیْ شَغَفْتُ بِہٖ ’’بجز اس طبیب کے جس سے مجھے شغف ہے۔‘‘ فَعِنْدَہٗ رُقْیَتِیْ وَتِرْیَاقِیْ ’’صرف اس کے پاس میرا منتر اور تریاق ہے۔‘‘ یا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا: ((اِنَّ الْفُقَرَآئَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ الْاَغْنِیَائِ بِنِصْفِ یَوْمٍ)) ’’ فقراء جنت میں اغنیا سے آدھے دن پہلے داخل ہوں گے‘‘ تو اس پر شعر کہے گئے اور انہیں وجد آگیا۔ یہ تمام روایتیں محض کذب وافترا ہیں ۔ تمام اہل علم و ایمان ان کے کذب و بطلان پر متفق ہیں ۔ نزاع کرنے والا محض جاہل یا گمراہ ہے اگر کسی کتاب میں اس قسم کی کوئی بات مذکور ہے تو بھی جھوٹ ہے۔