کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 65
فصل (۴): کیا اصحابِ صُفّہ کو حال آتا تھا؟ رہا سیٹیوں ، تالیوں اور ربانی قصائد سننے کے لیے جمع ہونا، عام اس سے کہ سرور کے ساتھ یا بغیر سرور کے تو یہ فعل نہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا، نہ اہلِ صفہ نے نہ سلف صالحین کی کسی اور جماعت نے بلکہ تابعین، تبع تابعین بلکہ قرونِ ثلاثہ جو بموجب حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (( خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ اَلَّذِیْ بُعِثْتُ فِیْھِمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ)) (بخاری و مسلم) ’’بہترین زمانہ وہ ہے جس میں میں مبعوث کیا گیا پھر وہ جو ان کے بعد ہے پھر وہ جو ان کے بعد ہے۔‘‘ خیر القرون میں کسی نے بھی نہیں کیا،صدرِ اول میں کوئی شخص بھی اس قسم کے سماع کے لیے جمع نہ ہوتا تھا۔ نہ حجاز میں ، نہ شام میں ،نہ یمن میں ، نہ عراق میں ، نہ مصر میں ،نہ خراسان میں ، نہ مغر ب اقصیٰ میں ۔ البتہ ایک سماع ضرور ایسا تھا جس کے لیے ان کا اجتماع ہوا کرتا تھا اور وہ قرآن کا سماع تھا نہ کہ تالیوں باجوں اور ہا ؤ ہو کا سماع۔چنانچہ جب صحابہ(اصحابِ صفہ ہوں یا دوسرے) یکجا ہوتے تو ایک سے کہتے قرآن پڑھو۔ وہ تلاوت شروع کرتا اور باقی سب سنتے۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصحابِ صفہ کی طرف سے گزر ہوا۔ ان میں ایک شخص قرآن پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ قرآن سننے کے لیے بیٹھ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے کہا کرتے تھے’’ یا ابا موسیٰ ذَکِّرْنَا رَبَّنَا (’’ ابو موسیٰ ہمیں ہمارے رب کی یاد دلاؤ‘‘) چنانچہ وہ قراء ت کرتے تھے اور سب سنتے تھے۔