کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 64
اور فرمایا:
﴿لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ ﴾ (الفتح:۱۸)
’’البتہ اللہ مومنین سے راضی ہوا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کرتے تھے ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ﴾ (التوبۃ:۱۰۰)
’’مہاجرین و انصار میں سے سابقون الاولون اور جنہوں نے ان کی نیکی کے ساتھ اتباع کی۔‘‘
اصحابِ بدر کی فضیلت اس قدر ثابت ہے کہ سب سے ممتاز ہو گئے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت دی ہے۔ ان میں اہل صفہ اور باقی دوسرے صحابہ داخل ہیں ۔عشرہ مبشرہ میں کوئی بھی صفہ میں نہ تھا بجز سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے کہ جن کے متعلق کہا گیا ہے کہ ایک مرتبہ صفہ رہے تھے۔ رہے اکابر مہاجرین و انصار مثلاً خلفائے راشدین، سعد بن معاذ، (اسید) بن حضیر، عباد بن بشر، ابو ایوب انصاری، معاذ بن جبل، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم وغیرہ تو ان میں سے کوئی بھی صفہ میں نہ تھا۔ اصحابِ صفہ عموماً فقراء مہاجرین میں سے تھے۔ انصار اپنے وطن میں تھے اور اپنی کفالت خود کرتے تھے۔ اس وقت کوئی بھی اصحابِ صفہ یا کسی دوسرے انسان سے کوئی نذر یا منت نہ مانتا تھا۔