کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 62
بَیْنَھُمَا۔)) (موضوعات)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ باتیں کرتے تھے اور میں ان کے مابین زنگی کی طرح ہو تا تھا۔‘‘
حالانکہ یہ بھی ایک صریح کذب بیانی ہے۔ پھر لطف یہ کہ ایک طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد افضل خلق تھے اس طرح ظاہر کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یار غار کی گفتگو بالکل نہ سمجھ سکتے تھے بلکہ ایک ان پڑھ زنگی کی طرح بیٹھے ادھر ادھر دیکھا کرتے تھے اور دوسری طرف خود اپنے متعلق دعویٰ کرتے ہیں کہ باوجود غیر موجود ہونے کے انہوں نے وہ گفتگو سنی اور خوب سمجھ لی پھر ان دجالوں میں سے ہر دجال اپنی ضلالت وکفریات کو علم الاسرار وحقائق قرار دیتا اور اپنی ہو ا وہوس کے مطابق ان کی تفسیر و تشریح کرتا ہے حالانکہ ان کفریا ت سے ان کی اصلی غرض یا تو الحاد ہے تاتعطیلِ شریعت۔
یہی حال ان کفریہ دعووں کا بھی ہے جو نصیریہ، اسماعیلیہ ،قرامطہ، باطنیہ اور حاکمیہ وغیرہ گمراہ فرقے کر تے تھے۔ وہ دین اسلام کے صریح خلا ف ہیں اور انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ بن طالب رضی اللہ عنہ یا جعفر صادق رحمہ اللہ ائمہ اہلِ بیت کی طرف منسوب کرنا صریح بہتان ہے۔
ائمہ اہل بیت اور دوسرے اولیاء اللہ پر اس قدر افترا پردازی کی جرأت ان دشمنانِ دین و شریعت کو اس وجہ سے ہوئی کہ اہل بیت کو چونکہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابتِ نسبی اور اولیاء اللہ صالحین کو قرابتِ اتصال و اتباع حاصل ہے اور اس لیے وہ امت محمدیہ میں عام طور پر مقبول ومحترم ہیں لہٰذا اپنی گمراہی وضلالت کو خوشنما و مقبول بنانے کے لیے انہوں نے ہر چیز کو ان لوگوں سے منسوب کر دیا اور بہتوں نے ان کے معاملہ میں اس قدر غلو کیا کہ انہیں معبود بنا دیا اور ان سے منسوب گمراہیوں کو کتاب اللہ، سنتِ رسول اللہ، اجماع سلف صالحین بلکہ خود اہل بیت و اولیاء اللہ کے حقیقی اجماع پر ترجیح دے دی۔