کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 61
قتل کروں گا ۔‘‘ چنانچہ امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اس فرمانِ نبوی کی تعمیل کی۔ جب یہ گروہ ظاہر ہو ا، شریعتِ محمدی، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور جماعت امتِ مرحومہ سے باہر ہو گیا تو امیر المومنین نے تلوار اٹھائی اور مقاتلہ کیا۔اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ شریعت میں ان لوگوں کا کیا حکم ہو گا جو اعتقاد رکھتے ہیں کہ مومنین کفار کی طرف سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تلوار چلاتے تھے؟ اسی طرح ان کذابوں کی یہ روایت بھی سراسرافترا ہے کہ اصحابِ صفہ کو سب معلوم ہو گیا تھا جو اللہ نے اپنے رسول سے معراج کی رات فرمایا تھا۔ حالانکہ بقول ان کے اللہ نے تاکید کر دی تھی کہ اسے کسی پر ظاہر نہ کریں ۔ مگرجب صبح ہوئی تو اصحابِ صفہ میں اس کا چرچا پایا، اس پر آپ بہت کبیدہ ہوئے مگر اللہ نے فرمایا: ہاں میں نے تجھے اس کے اظہار کی ممانعت کی تھی لیکن خود میں نے جو تیر اخالق و معبود ہوں ، اسے اصحابِ صفہ پر کھول دیا اور یہ اس طرح کی تمام روایتیں سراسر کذب و افترا بلکہ کفر سے بھی زیادہ سخت ہیں ۔اس سفید جھوٹ سے بڑھ کر بھی کوئی جھوٹ ہو گا کہ معراج کے قصہ میں یہ فرضی واقعہ اصحابِ صفہ سے منسوب کر دیا گیا؟ معراج مکہ میں ہوئی تھی جہاں صفہ اور اصحابِ صفہ کا وجو د بھی نہ تھا۔ معراج مکہ میں ہونا مسلم ہے۔ خود قرآن میں ہے: ﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ ﴾ (بنی اسرائیل:۱) ’’پاک ہے وہ جو اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گیا کہ جس کے گرد ہم نے برکت دی ہے ۔‘‘ یہی حال ان گمراہوں کی اس جھوٹی روایت کا ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا بیان کرتے ہیں کہ : ((کَانَ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم یَتَحَدَّثُ ھُوَ وَاَبُوْبَکْرٍ وَکُنْتُ کَالزَّنْجِیْ