کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 60
قلب وتوجہ سے ان کی حفاظت کرتے ہیں ، شریعتِ محمدیہ سے خروج اپنے لیے بالکل مباح سمجھتے ہیں اور پھر یہ اعتقاد و دعویٰ بھی رکھتے ہیں کہ ہم اولیاء اللہ ہیں ! حالانکہ وہ از سر تاپا ضلالت و گمراہی کا مجسمہ ہیں ، اگرچہ کتنے ہی زہد و عبادت کی نمائش کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کو مومن کا اور کافر کو کافر کا ولی و مددگار بنا دیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مارقین اسلام سے مقاتلہ کا حکم دیا ہے حالانکہ ان کی عبادت و ریاضت کا یہ عالم تھا کہ خود ہی فرما دیا: ((یَحْقَرْ اَحَدُکُمْ صَلاَتہٗ مَعَ صَلَاتِھِمْ وَصِیَامَہٗ وَقِرَائَ تَہٗ مَعَ قِرَائَ تِھمْ۔)) (ترمذی و نسائی ) ’’تم اپنی نماز ان کی نماز کے سامنے اور اپنا روزہ ان کے روزے کے سامنے اور اپنی تلاوت ان کے تلاوت کے سامنے حقیر جانو گے۔‘‘ لیکن ان کی حقیقت کیا تھی؟ ((یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَھُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الْاِسْلَامِ کَمَا یَمْرُقُ السَّھْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ۔)) (بخاری ومسلم ) ’’قرآن پڑھیں گے مگر ان کے حلق سے آگے نہ بڑھے گا، اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر چلہ سے نکل جاتا ہے۔‘‘ اس لیے حکم دیا : ((اَیْنَمَا لَقِیْتُمُوْھُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ فَاِنَّ فِیْ قَتْلِھِمْ اَجْرًا عِنْدَ اللّٰہَ لِمَنْ قَتَلَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَئِنْ اَدْرَکْتُھُمْ لَاَقْتُلُنَّھُمْ قَتْلَ عَادٍ۔)) (بخاری ومسلم ) ’’جہاں کہیں انہیں پاؤ قتل کرو کیونکہ ان کے قتل میں قاتل کے لیے اللہ کے ہاں قیامت کے دن ثواب ہے اگر میں نے ان کا زمانہ پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح