کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 59
﴿یٰٓاََیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنْ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌوَاِِنَّ ہٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ﴾(المومنون:۵۱،۵۲) ’’اے رسولو! طیبات کھاؤ اور نیک کام کرو، میں تمہارے عمل سے واقف ہوں اور تمہاری ایک ہی امت ہے۔ اور میں تمہارا رب ہوں پس مجھ ہی سے ڈرو۔‘‘ یہ (یعنی توحید)اسلام کی پہلی اصل تھی، اس کے بعد ہی دوسری اصل ہے اور وہ تصدیقِ رسالت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ شروع سے لے کر آخر تک تمام انبیاء مثلاً نوح و ہود و صالح علیہم السلام سب نے آکر یہی دعوت دی ہے: ﴿اَنْ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوہُ وَاَطِیعُوْنِ ﴾ (نوح:۳) ’’اللہ کی عبادت کرو، اس سے ڈرو اور میری اطاعت کر و۔‘‘ پس جس کا یہ عقیدہ نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ تمام جہانوں کے لیے ہادی بنائے گئے ہیں ۔تمام مخلوق پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و پیروی واجب کر دی گئی ہے۔ حلال وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال کیا۔ حرام وہی ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام بتایا۔ دین الٰہی وہی ہے جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کی تو ایسا شخص کافر ہے اور ان منافقین وکفار کے زمرہ میں شامل ہے جو آپ کے دین و شریعت و اطاعت سے سر کشی کو (اگرچہ کسی حیثیت سے ہو) جائز رکھتے اور دین اللہ کی تخریب میں کفار و فجار کی اعانت و نصرت رواجانتے ہیں ۔ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اصحابِ صفہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قتال کیا یا کہا کہ ہم تو اللہ کے ساتھ ہیں اور جو کوئی اللہ کے ساتھ ہے ہم بھی اسی کے ساتھ ہیں تو وہ سراسر مفتری کذاب ہے۔ ان گمراہوں کی مراد امر الٰہی اور حقیقت دینیہ کو چھوڑ کر وہی’’ حقیقت کونیہ ‘‘ ہے جس کی طرف ہم ابھی اشارہ کر چکے ہیں ۔ اہل تصوف و فقرمیں اس طرح کے استدلال کرنے والے وہی لوگ ہیں جو کفار و فجار سے ساز باز رکھتے ہیں ، ان کی مدد کرتے ہیں ، اپنی روح و