کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 57
﴿قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہَا اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَo قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَo قُلْ مَنْ بِیَدِہِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّہُوَ یُجِیرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَo﴾ (المؤمنون:۸۴۔۸۹) ’’اگر ان سے پوچھو کس نے آسمان زمین پیدا کئے؟ کہہ دیں گے اللہ نے۔ پوچھو زمین اور جو کچھ اس میں ہے کس کا ہے… کہہ دیں گے اللہ کا… پوچھو ساتوں آسمانوں کا اور عرش عظیم کا رب کون ہے؟ کہہ دیں گے اللہ …پوچھو کس کے ہاتھ میں ہر چیز کا قبضہ ہے اور پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں پناہ نہیں دی جاتی؟… کہہ دیں گے اللہ …کہیے پس کہاں تم بہکے جاتے ہو۔‘‘ پس کفار و مشرکین بھی اقرار کرتے ہیں کہ اللہ ہی آسمانوں ، زمینوں اور تمام کائنات کا خالق ہے۔کفار میں کوئی ایک بھی نہیں جس نے اللہ کی ذات و صفات و افعال میں کسی دوسرے کو اس کا بالکل مساوی شریک گردانا ہو۔چنانچہ آتش پرست مجوس، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا ماننے والے نصاریٰ، ستاروں اور فرشتوں کے پرستار صابی، انبیاء و صالحین کی پوجا کرنے والے جاہل، بتوں اور قبروں پر جھکنے والے غافل کوئی بھی نہیں جو غیر اللہ کو بہمہ وجوہ اللہ کا ہم پلہ و شریک مانتا ہو بلکہ باوجود اپنے کفر و شرک کی مختلف شکلوں کے سب کے سب رب العزت کا اقرار کرتے اور اس کی ذات وصفات و افعال میں کسی کو بالکل اس کا مثیل نہیں مانتے لیکن اس پر بھی اللہ کی شریعت میں کافر و مشرک بتائے گئے ہیں کیونکہ اگر ربوبیت میں نہیں تو الوہیت میں شرک کرتے ہیں اور اس کے ساتھ غیر وں کومعبود ٹھہراتے ہیں ۔اس کی پرستش کرتے ہیں ۔ انہیں شریک یاشفیع سمجھتے ہیں ۔ یعنی وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کائنات کا خدائے حی وقیوم کے علاوہ ایک اور رب بھی ہے۔ جو اللہ ہی کی مخلوق ہے اور اسی کی ربوبیت