کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 56
ہوتے۔‘‘ (الانعام:۱۴۸)
اور کہتے ہیں :
﴿اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَائُ اللّٰہُ اَطْعَمَہٗ﴾ (یس:۴۷)
’’کیا ہم اسے کھلائیں جسے اگر اللہ چاہتا ضرور کھلاتا۔‘‘
وغیرہ اقوال و افعال جو یہود ونصاریٰ بلکہ مشرکین و مجوس اور جملہ کفار کے اقوال و افعال سے بھی بدتر ہیں بلکہ وہ فرعون و دجال وغیرہ کے اقوال وافعال کی جنس سے ہیں جو رَبُّ السَّمَاوَاتِ والْاَرْضِ اور رَبُّ الْعَالَمِیْنَ کا انکار کرتے ہیں یا کہتے ہیں ’’ ہم ہی اللہ ہیں یا اللہ ہم میں حلو ل کیے ہوئے ہے۔‘‘
یہ لوگ کتنا ہی ادعائے اسلام کریں ۔ اسلام کی اصل الاصول یعنی شہادت ’’ لَا اِلٰہَ الَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کے منکر ہیں کیونکہ جو توحید مطلوب و واجب ہے یہی ہے کہ صرف خدائے واحد کی پرستش کی جائے اور کسی چیز کو بھی اس کے ساتھ شریک نہ کیا جائے نہ اس کی الوہیت میں نہ اس کی ربوبیت میں ۔رہی محض توحیدِ ربوبیت یعنی یہ اقرار کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے تو مشرکین بھی اس کے قائل تھے لیکن باوجود توحید ربوبیت پر ہونے کے مشرک قرار دیے گئے۔چنانچہ فرمایا:
﴿وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمْ مُّشْرِکُوْنَ﴾
’’ان میں سے اکثر شرک کرتے ہوئے ہی اللہ پر ایمان لاتے ہیں ۔‘‘
قرآن میں ہے:
﴿وَ لَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ﴾(لقمان:۲۵)
’’اور اگر ان سے پوچھو کہ آسمان و زمین کس نے پیدا کیے؟ کہہ دیں گے، اللہ نے!لیکن اس پر بھی غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ‘‘