کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 55
ماسویٰ اللہ اور حنیفیتِ انبیاء و صحفِ سماویہ پر ایمان اور ان سے کفر و اعراض سب برابر ہیں ۔ یہ منافق ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عملِ صالح پر کاربند رہے اور ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا اور زمین کو فساد سے بھر دیا یکساں سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک متقین و فجار اور مسلمین و مجرمین ایک ہیں ۔ وہ ایمان و تقویٰ اور عمل صالح و حسنات کو بمنزلہ کفر و عصیان کے قرار دیتے ہیں ۔ اہلِ جنت کو مثل اہل جہنم کے اور اولیاء اللہ کو مثل اعداء اللہ کے سمجھتے ہیں ۔ پھر اسے کبھی رضا بالقدر قرار دیتے ہیں اور کبھی توحید و حقیقت بتاتے ہیں ، ان کی گمراہی کی بنیاد اس بڑی گمراہی پر ہے کہ خدا کے ہاں جو چیز مطلوب ہے وہ توحیدِ ربوبیت’’ حقیقت کونیہ‘‘ ہے جس کے تسلیم کرلینے کے بعد سب ہم درجہ ہو جاتے ہیں لیکن اصل یہ ہے کہ یہ گمراہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی بابت خبر دی گئی ہے: ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُنِ طْمَاَنَّ بِہٖ وَ اِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ ﴾ ( الحج:۱۱) ’’بعض لوگ ایسے ہیں جو کنارے پر سے خدا کی عبادت کرتے ہیں اگر اسے فائدہ حاصل ہوتا ہے تو مطمئن ہوتے ہیں ، اگر امتحان میں پڑتے ہیں تو الٹے پھر جاتے ہیں ۔ ان کی دنیا و آخرت دونوں ضائع ہو ئے۔‘‘ اور ان کے غلاۃ تواس میں یہاں تک غلو کرتے ہیں کہ کفار کے قتال کو قتال اللہ قرار دیتے ہیں اورکفار و فجار اور بتوں کو خود ذات الٰہی میں سے بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے وجود میں اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ’’ جو کچھ ہے وہی وہ ہے۔‘‘ یعنی جتنی بھی مصنوعات ہیں سب صانع ہیں ۔ اور یہ بھی کہتے ہیں : ﴿لَوْشَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکْنَا وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْئٍ﴾ ’’ اگر اللہ چاہتا نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے بزرگ اور نہ کسی چیز سے محروم