کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 49
’’اگر اپنی رسی لے کر جاؤ اور لکڑی چن لاؤ تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ لوگوں سے مانگو، دیں یا نہ دیں ۔‘‘ رہی یہ بات کہ کس قدر مانگنا جائز ہے تو خود اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام و خضر علیہ السلام کے قصہ میں بتا دیا ہے کہ دونوں ایک آبادی میں پہنچے اور’’ کھانا‘‘ مانگا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مزید تشریح فرما دی ہے کہ: ((لَا تَحِلُّ الْمَسْئَلَۃُ اِلَّا لِذِیْ اَلَمٍ مُّوْجِعٍ اَوْ عَزَمٍ مُّفَظِعٍ اَوْ فَقْرٍ مُدْقِعٍ۔)) (زاد مسلم) ’’سوال صرف اس شخص کے لیے جائز ہے جسے کوئی سخت بیماری ہو یا جس پر بھاری قرض ہو یا فاقہ کشی میں مبتلا ہو۔‘‘ اور جیسا کہ قبیصہ بن مخارق الہلالی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ((یَا قَبِیْصَۃُ لَا تَحِلُّ الْمَسْئَلَۃُ اِلَّا لِثَلَاثَۃٍ: رَجُلٌ اَصَابَتْہٌ جَائِحَۃٌ اِجْتَاحَتْ مَالَہٗ فَسَآَلَ حَتّٰی یَجِدَ سَدَادً مِنْ عَیْشٍ ثُمَّ یُمْسِکُ وَرَجُلٌ یَحْمِلُ حَمَالَۃً فَیَسْآَلُ حَتّٰی یَجِدَ حَمَالَتَہٗ ثُمَّ یُمْسکُ وَمَا سِوٰی ذَالِکَ مَنِ الْمَسْئَلَۃِ فَاِنَّمَا ھُوَ سُحْتٌ اَکَلَہٗ سُحْتاً۔)) (مسلم) ’’اے قبیصہ! سوال صرف تین شخصوں کے لیے جائز ہے:جس کے مال کو کسی آفت نے نازل ہو کر تباہ کر ڈالا اور اس نے سوال کیا یہاں تک کہ روزی مل گئی پھر رک گیا، اور وہ شخص جس پر بار ہے پس اس نے سوال کیا یہاں تک کہ بار اتر گیا پھر رک گیا۔اس کے علاوہ جو سوال ہے حرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔‘‘ رہی بھیک اور دریوزہ گری تو نہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں اور نہ اہلِ صفہ میں اور نہ سلف میں کسی اور کا یہ پیشہ تھا کہ زنبیل یا جھولی لے کر در بدربھیک مانگے، اس پر اکتفا کر کے بیٹھ جائے اور